بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیاں”پاکستان میں صوبائیت کی تحریکیں وفاقی حکومت کے خلاف جذبات کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہیں، اور یہ مسئلہ خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے صوبوں میں گہرا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا دونوں نے وفاقی حکومت کے خلاف اپنی حقوق کی جدوجہد کو مختلف ادوار میں شدید کیا ہے۔ ان دونوں صوبوں کی تاریخ میں وفاقی حکومت کے ساتھ تنازعات اور شکایات کا آغاز اس بات سے ہوا کہ انہیں وفاقی نظام میں برابر کے حقوق اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ملی۔ ان صوبوں میں صوبائیت کی تحریکوں کے پیچھے نہ صرف سیاسی عوامل ہیں بلکہ ان کی ثقافتی شناخت اور قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے مسائل بھی موجود ہیں۔پاکستان کے قیام کے وقت ہی بلوچستان میں وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات پر سوالات اٹھنے لگے تھے۔ 1947 میں جب پاکستان نے اپنے قیام کا اعلان کیا، بلوچستان کے سرداروں اور عوام نے مکمل طور پر پاکستان میں شامل ہونے کی حمایت نہیں کی۔ ان کا یہ اعتراض تھا کہ انہیں اپنے سیاسی حقوق، قدرتی وسائل اور خودمختاری سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ بلوچستان کی یہ شکایت صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھی، بلکہ اس کے پسِ منظر میں ثقافتی اور لسانی اختلافات بھی تھے، جنہیں وفاقی حکومت نے نظرانداز کیا۔ یہ عدم توازن اس وقت سامنے آیا جب بلوچستان میں قدرتی وسائل کی دریافت کے بعد وفاقی حکومت نے ان وسائل پر قبضہ کیا اور ان کی تقسیم کو مرکز میں رکھا۔ یہی مسئلہ بلوچستان میں وفاقی حکومت کے خلاف مزاحمت کا باعث بنا۔بلوچستان میں سب سے پہلی بڑی بغاوت 1948 میں ہوئی، جب بلوچستان کے مقامی رہنماؤں نے وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول قدرتی وسائل اور ان کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد، 1970 کی دہائی میں بھی بلوچستان میں وفاقی حکومت کے خلاف شورشیں دیکھنے کو ملیں، جب وفاقی حکومت نے صوبے کی منتخب حکومت کی مرضی کے خلاف اقدامات کیے اور اسے اپنے فیصلوں میں شامل نہیں کیا۔ بلوچستان میں وفاقی حکومت کے خلاف مزاحمت اس بات کی غماز ہے کہ وہاں کے عوام ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہے ہیں۔خیبرپختونخوا بھی وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات میں مشکلات کا شکار رہا ہے۔ خیبرپختونخوا کی عوام کی ثقافتی شناخت پشتو اور پشتونوالی کے اصولوں پر مبنی ہے، جو ہمیشہ خودمختاری کی خواہش رکھتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے عوام نے ہمیشہ وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے سیاسی حقوق اور وسائل کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد، خیبرپختونخوا کے عوام کو وفاقی حکومت کی جانب سے کم ترقیاتی منصوبوں اور وسائل کی ناہموار تقسیم کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے یہاں کے عوام میں احساسِ محرومی بڑھا۔1973 کے آئین کے بعد خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تحریکیں ابھریں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے عوام نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ 2000 کی دہائی کے دوران دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے مسائل نے صوبے میں وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی تعلقات اور وہاں کی سیاسی صورتحال نے خیبرپختونخوا کو وفاقی حکومت سے زیادہ خودمختاری کی ضرورت کا احساس دلایا۔خیبرپختونخوا کے عوام کی شکایت یہ رہی ہے کہ وفاقی حکومت نے ان کے قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بجائے ان پر قبضہ کر لیا، اور ان کے حقوق کو نظرانداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں صوبائیت کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے، اور وفاقی حکومت کے خلاف مطالبات میں شدت آئی ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام نے ہمیشہ اپنے حقوق کی فراہمی اور خودمختاری کے حوالے سے وفاقی حکومت سے زیادہ توجہ کی خواہش کی ہے۔پاکستان کے وفاقی نظام میں ہمیشہ صوبوں کے حقوق کی بحث ہوتی رہی ہے، اور صوبے خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا ہے۔ ان صوبوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے ہمیشہ ان کے قدرتی وسائل اور اقتصادی فوائد پر قبضہ کیا اور ان کی نظرانداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں صوبائیت کی تحریکیں صرف ایک سیاسی ردعمل نہیں ہیں، بلکہ یہ اس بات کا غماز ہیں کہ وفاقی حکومت کے فیصلوں نے ان صوبوں کے عوام میں احساسِ محرومی پیدا کیا ہے۔خصوصاً بلوچستان میں قدرتی گیس، معدنیات اور دیگر وسائل کی دریافت کے بعد وفاقی حکومت کی پالیسیوں نے صوبے میں جذباتی ردعمل پیدا کیا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں میں عدم مساوات اور وسائل کی تقسیم میں ناہمواری نے عوام میں احساسِ محرومی کو بڑھایا۔پاکستان میں وفاقی حکومت کی پالیسیوں اور صوبوں کے درمیان حقوق کی تقسیم ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے صوبوں میں احساسِ محرومی اور وفاقی حکومت کے خلاف جذبات کا بڑھنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وفاقی حکومت کو صوبوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان صوبوں کے ثقافتی، سیاسی، اور اقتصادی حقوق کا احترام کرنا ضروری ہے تاکہ وفاقی نظام میں توازن برقرار رکھا جا سکے اور صوبوں میں وفاقی حکومت کے خلاف موجود جذبات کو کم کیا جا سکے۔اگر وفاقی حکومت نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کے حقوق کا احترام کیا اور قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی، تو یہ صوبے وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لا سکتے ہیں اور پاکستان میں سیاسی استحکام کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ان صوبوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت نے ان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیوں کو ترتیب دیا، تاکہ پورے پاکستان میں ہم آہنگی اور ترقی کا عمل جاری رہ سکے۔
119