اردو ورلڈکینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس میں دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔
صدر نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر ریکوڈک سیٹلمنٹ معاہدے پر سپریم کورٹ کی رائے لینے کے لیے ریفرنس دائر کیا تھا۔
دوران سماعت وکیل مخدوم علی خان نے ریکوڈک پراجیکٹ کے ماحول دوست ہونے سے متعلق عدالتی استفسار پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک پراجیکٹ میں تمام ماحولیاتی تحفظات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
ریکوڈک پراجیکٹ کے پانی کے استعمال سے متعلق عدالتی استفسار پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کمپنی کو جو پانی استعمال کرنا ہے وہ جانداروں کے استعمال کے قابل نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پائپ لائن کا پانی گوادر بندرگاہ پر صاف ہونے کے بعد سمندر میں جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سمندری پانی کو ریکوڈک منصوبے میں استعمال کے لیے لایا جا سکتا ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ گوادر ریکوڈک سے 680 کلومیٹر دور ہے اور روزانہ پانی لانا ناممکن ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ منصوبے میں پانی کا مسلسل استعمال بلوچستان میں خشک سالی کا باعث بن سکتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ تحقیق کے مطابق ریکوڈک میں پانی کا ذخیرہ منصوبے کی کل زندگی سے زیادہ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا غیر ملکی کمپنی کے لیے صوبہ بلوچستان میں واٹر ری سائیکلنگ پلانٹ لگانا ممکن نہیں؟ انہوں نے پوچھا کہ ریکوڈک کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے تحفظات اور مراعات کیا ہیں انہوں نے مزید کہا کہ مقامی مزدوروں کے لیے فوائد بہتر ہونے چاہئیں۔