اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) الیکشن تاریخ سے متعلق از خود نوٹس کیس ،بڑی عدالت میں بڑے کیس کافیصلہ محفوظ کرلیا گیا ، آج دن ساڑھے گیارہ بجے سنایا جائے گا
اس کیس کی کچھ دنوں سے سماعت جاری تھی ،پی ٹی آئی کی وکیل علی ظفر نے دلائل تھے اور تمام وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے ۔
یاد رہے کہسپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا ہ کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں حکومت اور پی ٹی آئی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومت اور پی ٹی آئی کی مشاورت سے انتخابات کی تاریخ دیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کے تحت نظام کو مفلوج کرنے کی اجازت نہیں۔ انتخابات ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔
بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ تاریخ کون دے گا؟ باقی بات الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی ہو گی۔ اگر تاریخ دینے کا معاملہ قانون میں واضح کیا جاتا تو آج ہم یہاں کھڑے نہ ہوتے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 90 دن میں انتخابات کرانا آئین کی روح ہے۔ اٹارنی جنرل سے کہا جائے گا کہ وہ آئینی نکات پر معاونت کریں۔ صدر کے صوابدیدی اور مشاورتی اختیارات میں فرق ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کی مدت اسمبلی تحلیل ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نگرا ن وزیراعلی گورنر کو الیکشن کی تاریخ دینے کا مشورہ دے سکتے ہیں؟ کیا گورنر نگراں حکومت کے مشورے کو مسترد کر سکتے ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ کیا جاتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کے پاس ہے نگران وزیر اعلی کے پاس نہیں۔
عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ انتخابات 90 دن میں کرائے جائیں۔
اٹارنی جنرل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام عدالتی حکم نامے سے نکال دیا گیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ایک ادارے کے طور پر جانتی ہے۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت میں جو لکھا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نہیں ہوتا، جب جج دستخط کرتے ہیں تو حکم بن جاتا ہے۔
عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان اور مانیٹرنگ سیٹ اپ ایک ساتھ ہوتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کے پاس ہے نگران وزیر اعلی کے پاس نہیں۔ اتنے دنوں سے اس کا اعلان نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 دن میں انتخابات کرانا آئین کی روح ہے۔ اٹارنی جنرل کو آئینی نکات پر معاونت کے لیے کہا جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دیں گے، 52 دن کا مارجن رکھا جائے گا۔
عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے مشاورت کے لیے خطوط لکھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کس قانون کے تحت خط لکھ رہے ہیں۔ آئین میں مشاورت کا کوئی ذکر نہیں۔ نگران حکومت بھی تاریخ مانگ سکتی ہے
جسٹس جمال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین میں نہیں بتائے گئے ہیں۔ آئین میں اختیارات نہیں تو قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔ اگر منظور شدہ قانون صدر کو اجازت دیتا ہے تو صدر مشورے کا پابند ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری طرف سننے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ صدر سے مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر تاریخ نہیں دے رہے، صدر بھی مشورے کے پابند ہیں تو الیکشن کیسے ہوں گے؟ اگر وزیراعظم مشورہ نہ دیں تو صدر الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں اختیارات صدر کو تفویض کیے ہیں۔
عابد زبیری نے کہا کہ تفویض کردہ اختیارات استعمال کرنے کے لیے مشورے کی ضرورت نہیں۔ بہرصورت انتخابات 90 دن کے اندر ہونے چاہئیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز چھاپنے کے لیے وقت درکار ہے۔ انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک ہوسکتا ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر 90 دن میں انتخابات کرانا ہوں گے تو 1988 کے الیکشن مشکوک ہو جائیں گے۔ سال 2018 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ تاریخ کون دے گا؟ باقی بات الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی ہو گی۔ اگر تاریخ دینے کا معاملہ قانون میں واضح کیا جاتا تو آج ہم یہاں کھڑے نہ ہوتے۔