سماعت کے آغاز میں وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی ہے جو کہ فوجداری اپیل ہے جبکہ ہماری درخواست لاہور ہائی کورٹ کے سزا کو منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف ہے جو کہ ایک آئینی معاملہ ہے. دونوں اپیلوں کی الگ الگ سماعت ہونی چاہیے
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار اور اپیل دو الگ الگ معاملات ہیںسب سے پہلے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کی بات سنیں
سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی مخالفت کی جس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے پوچھا کہ کیا آپ پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں یا حمایت کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں
وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے اہل خانہ کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں ہیں. خاندان کو اس کیس کا علم ہے. نومبر سے اب تک 10 سے زائد مرتبہ رابطہ کیا گیا. کیس کے حق میں یا اس کے خلاف کوئی ہدایات نہیں دی گئیں. میں پرویز مشرف کے خاندان کی نمائندگی نہیں کر رہا ہوں
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انہیں براہ راست نوٹس بھی جاری کیے ہیں جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انہیں ایک اخباری اشتہار کے ذریعے نوٹس بھی دیا تھا. میں دو مقدمات میں عدالتی مدد فراہم کر سکتا ہوں، جن پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ قانونی صورتحال پر ہی عدالت کی مدد کر سکتے ہیںسپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کے سامنے دو سوالات ہیں. آیا متوفی کے انتقال کے بعد اپیل کی سماعت کی جا سکتی ہے، پہلا سوال. اگر سزائے موت کو برقرار رکھا جائے تو کیا مشرف کے قانونی وارث میت کے فوائد کے حقدار ہیں، ایک اور سوال. فیصلے میں مزید کہا گیا کہ متعدد کوششوں کے باوجود مشرف کے ورثاء سے رابطہ نہیں ہو سکا. ہمارے پاس سزائے موت کو برقرار رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے.
95