اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)رواں ہفتے کے آغاز میں وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ نے کابینہ سے استعفیٰ دے کر کینیڈا کی سیاست میں ہلچل مچا دی۔
استعفیٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وفاقی حکومت موسم خزاں کا معاشی بیان جاری کرنے والی ہے۔ فری لینڈ کے فیصلے نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی قیادت اور حکومتی ایجنڈے کے بارے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
کرسٹیا فری لینڈ نے سوشل میڈیا پر ٹروڈو کے نام ایک کھلا خط پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ جمعہ کو ٹروڈو نے انہیں بتایا کہ وہ ان کی محنت کے باوجود انہیں وزیر خزانہ نہیں رکھنا چاہتے۔ انہیں کابینہ میں دیگر عہدوں کی پیشکش کی گئی۔
فری لینڈ نے خط میں لکھا، ’’تفصیل کے بعد، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کابینہ سے استعفیٰ دینا میرے لیے سب سے ایماندار اور مناسب طریقہ ہے۔‘‘
انہوں نے استعفیٰ کے پیش نظر کینیڈا کے معاشی حالات پر بھی گہرائی سے غور کیا۔ انہوں نے اپنے خط میں نشاندہی کی کہ وہ حکومت کے مہنگے اقدامات سے متفق نہیں ہیں۔
فری لینڈ کا استعفیٰ ٹروڈو حکومت کے لیے بڑا سیاسی دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹروڈو کی قیادت انتخابی شکست کی وجہ سے پہلے ہی آگ کی زد میں ہے اور پارٹی کے بہت سے ایم پیز کی جانب سے ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لبرل پارٹی کو گزشتہ موسم گرما میں ٹورنٹو اور مونٹریال کے دو رائیڈنگز میں ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے لبرل پارٹی کے اندر بغاوت کو مزید تقویت ملی۔ 25 ایم پیز نے ٹروڈو کو خط لکھ کر استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔
کنزرویٹو لیڈر پیئر پولیف نے کہا کہ فری لینڈ کے استعفیٰ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹروڈو "کنٹرول کھو چکے ہیں۔” پولیف نے وفاقی انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈینوں کو اب اپنا اگلا وزیر اعظم منتخب کرنے کا حق ہونا چاہیے۔
بلاک Québécois کے رہنما Yves-Francois Blanche نے بھی انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹروڈو حکومت جواب دینے سے قاصر ہے۔ این ڈی پی لیڈر جگمیت سنگھ نے ٹروڈو سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی ہر آپشن پر غور کرے گی۔
فری لینڈ نے خط میں واضح کیا کہ وہ لبرل پارٹی کے ساتھ رہیں گے اور اگلے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے استعفے سے نہ صرف ٹروڈو کی حکومت بلکہ پارٹی کے اندرونی حالات بھی متاثر ہوں گے۔
فری لینڈ کے چونکا دینے والے فیصلے نے سیاسی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے۔ کیا ٹروڈو آئندہ انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کا جلسہ کر سکیں گے یا کسی نئے لیڈر کی ضرورت پڑے گی؟ یہ سوالات اب ٹروڈو اور ان کی پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔