اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر قانونی بھارتی اقدام کے چار سال مکمل ہونے پر لندن اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں یوم کشمیر یوم استحصال منایا گیا۔
کشمیر کے یوم استحصال پر سینٹرل لندن میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی، کشمیری رہنماؤں کی رہائی اور آئینی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب مانچسٹر اور بریڈ فورڈ میں کشمیری کمیونٹی نے احتجاج کیا۔ بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں بھی ریلی نکالی گئی جس میں مودی حکومت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔پیرس میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ تقریب میں مودی سرکار کے اقدامات کی مذمت کی گئی۔اوٹاوا میں پاکستانی سفارتخانے میں ایک تصویری نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا۔اس کے علاوہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض اور جدہ میں یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کیسے ختم کی؟
5 اگست 2019 کو، بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے راجیہ سبھا میں بل پیش کرنے سے پہلے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کو دو وفاق کے زیر انتظام حصوں یعنی (مرکز کے زیر انتظام علاقوں) میں تقسیم کر دیا۔ پہلا حصہ لداخ اور دوسرا جموں و کشمیر پر مشتمل ہوگا۔بھارت نے بھی ان دونوں بلوں کو لوک سبھا میں بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کی ریاست کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آج ملک بھر میں یوم کشمیر یوم استحصال منایا گیابھارتی آئین کی وہ شقیں اور قوانین جو دوسری ریاستوں پر لاگو ہیں اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کی ریاست پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں زمین خرید سکتا ہے۔بھارت نے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج تعینات کر دی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔