13
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور قدامت پسند رہنما چارلی کرک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے۔
چارلی کرک یوٹاہ ویلی یونیورسٹی میں خطاب کر رہے تھے جب ایک نامعلوم شخص نے تقریباً 200 گز دور ایک عمارت کی چھت سے نشانہ بنایا۔ گولی ان کی گردن پر لگی۔ فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔امریکی میڈیا کے مطابق حملہ آور عمارت کی چھت پر خاصی دیر تک موجود رہا، جس پر پولیس اور سکیورٹی اداروں کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ابتدائی طور پر ہجوم میں موجود ایک بزرگ شخص کو مشتبہ قرار دے کر حراست میں لیا گیا لیکن ثبوت نہ ملنے پر رہا کر دیا گیا۔ پولیس اب دوبارہ اصل حملہ آور کی تلاش میں ہے۔
ٹرمپ کا ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ "عظیم اور تاریخی چارلی کرک اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ نوجوانوں کے خیالات کو کوئی اتنی گہرائی سے نہیں سمجھتا تھا جتنا چارلی کرک وہ سب کے پسندیدہ تھے، بشمول میرے۔”صدر نے کرک کے اہل خانہ سے ہمدردی اور تعزیت بھی کی۔ وائٹ ہاؤس اور دیگر سرکاری عمارتوں پر اتوار تک امریکی پرچم سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یوٹاہ کے گورنر کا مؤقف
یوٹاہ کے گورنر نے اس حملے کو سیاسی طور پر محرک قرار دیا اور کہا کہ "امریکہ میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں، مجرموں کو ضرور انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔”
چارلی کرک کون تھے؟
چارلی کرک 1993 میں پیدا ہوئے اور کم عمری میں ہی قدامت پسند سیاست میں نمایاں ہو گئے۔ وہ 2012 میں قائم ہونے والی تنظیم "ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے” کے بانی تھے، جس کا مقصد امریکی تعلیمی اداروں میں قدامت پسند نظریات کو فروغ دینا تھا۔ کرک نوجوان نسل میں خاصی مقبولیت رکھتے تھے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی اتحادی تصور کیے جاتے تھے۔ وہ اکثر اپنے بیانات اور تقاریر میں لبرل پالیسیوں، امیگریشن اور صنفی شناخت کے موضوعات پر سخت مؤقف اختیار کرتے تھے ، ان کا شمار ری پبلکن پارٹی کے اثر و رسوخ رکھنے والے نوجوان رہنماؤں میں کیا جاتا تھا۔
روسی میڈیا کے مطابق چارلی کرک اس وقت "ٹرانس جینڈر معاملات” پر تقریر کر رہے تھے جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔ ان کے قتل کے بعد امریکی سیاست میں ایک نئی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے، جب کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔