اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو امن کے فروغ کا ایک نادر موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات او آئی سی اور عرب ریاستوں کی مشاورت کے ساتھ ترتیب دیے گئے ہیں اور پاکستان اس مشاورتی عمل میں متحرک طور پر حصہ لیتا رہے گا۔
عاصم افتخار نے واضح کیا کہ کوئی بھی لائحہ عمل بالآخر مکمل طور پر فلسطینی ملکیت اور شراکت پر مبنی ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ علاقوں پر قبضے کے تسلسل کو ختم کیے بغیر اس تنازعہ کا مستقل سیاسی حل ممکن نہیں، اور اس مقصد کے لیے غزہ میں فوری، غیر مشروط جنگ بندی لازم ہے۔
پاکستانی مندوب نے ایک اور اہم تنبیہ کرتے ہوئے اس حکمتِ عملی کی نشاندہی کی کہ اسرائیل کا ای-ون بستی منصوبہ دو ریاستی حل کے بنیادی تصورات پر براہِ راست حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی یروشلم کو الگ کرنے اور مغربی کنارے کی جغرافیائی یک جہتی کو متاثر کرنے کی یہ کوشش واضح طور پر بین الاقوامی قانون اور قرارداد 2334 کی خلاف ورزی ہے۔ اگر سلامتی کونسل اپنی طے شدہ قراردادوں کے نفاذ میں ناکام رہتی ہے تو اس کی ساکھ شدید خطرے میں پڑ جائے گی، ان الفاظ میں انہوں نے بین الاقوامی اداروں کی ذمّہ داری پر زور دیا۔
عاصم افتخار نے مقبوضہ اراضی کی موجودہ انسانی صورتِ حال کا تفصیلی خاکہ پیش کیا اور بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد اب تک 66 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، جن میں خواتین اور بچے اکثریت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ نہ صرف جارحیت اور بمباری کا نشانہ بن رہا ہے بلکہ دانستہ قحط، بنیادی شہری ڈھانچے کی تباہی اور خوراک و ادویات کی کمی سے بھی دوچار ہے۔ جاری فوجی کارروائیوں نے تقریباﹰ ایک ملین افراد کو بے گھر کر دیا ہے اور بہت سے متاثرین کے پاس مناسب پناہ گاہیں موجود نہیں۔
مندوب نے یہ بھی نوٹ کیا کہ شواہد میں کچھ مثبت پیش رفت بھی شامل ہے، جیسا کہ فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں دو ریاستی حل کے حوالے سے کانفرنسز اور متعدد ملکوں کی جانب سے فلسطین کو ریاست کا درجہ دینے کے اقدام، مگر انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ یہ بیانات عملی اقدامات میں بدلنے چاہئیں اور محض سخن و بیان تک محدود نہیں رہنا چاہئیں۔
پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے مطالبات میں فوراً اور مستقل جنگ بندی، ناکہ بندی کا خاتمہ اور متاثرین تک بلا روک ٹوک انسان دوست امداد کی رسائی شامل ہیں۔ مزید برآں انہوں نے مطالبہ کیا کہ یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے، جبری بے دخلی کے عمل کو مکمل طور پر روکا جائے، اور غزہ یا مغربی کنارے میں کسی بھی الحاقی کارروائی کو قطعی طور پر مسترد کیا جائے۔ قرارداد 2334 کے مکمل نفاذ کے لیے رو راست، وقتی حدیں مقرر کرنے والے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ دو ریاستی حل کی بقاء ممکن بنائی جا سکے۔
آخر میں عاصم افتخار نے زور دیا کہ ایک قابلِ اعتبار اور ناقابلِ واپسی سیاسی عمل فوری طور پر شروع کیا جانا چاہیے جو 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی موجودہ مصیبتیں انسانی تاریخ کی بدترین تصویروں میں سے ایک ہیں اور کثیرالجہتی نظام کی قدر و منزلت صرف بیانات سے نہیں، بلکہ ٹھوس اور بروقت عملی اقدامات سے محفوظ رہ سکتی ہے۔