اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز کینیڈا کے بارے میں پچھلے نومبر کے انتخابات کے بعد پہلی بار مثبت لہجہ اختیار کیا، تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا ان کے اس رویے سے کینیڈا پر عائد سخت محصولات میں کوئی کمی آئے گی یا نہیں۔
اوول آفس میں کینیڈین وزیرِاعظم مارک کارنی کے ساتھ 32 منٹ کی ملاقات کے دوران ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان "باہمی محبت” کی بات کی، کینیڈا کی فینٹانائل کے خلاف کوششوں کو سراہا اور کارنی کو "بہت مضبوط اور اچھا رہنما” قرار دیا۔
اگرچہ یہ سب صرف الفاظ ہیں اور پالیسی میں کسی حقیقی تبدیلی کے مترادف نہیں، مگر اس کا موازنہ ٹرمپ کے پہلے کے بیانات سے کیا جائے جب وہ کینیڈا پر غیر منصفانہ تجارتی رویے کا الزام لگاتے، کینیڈین برآمدات کو غیر ضروری قرار دیتے اور کبھی کبھار مذاق میں کہتے کہ کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بن جانا چاہیے — تو اس بار ان کا لہجہ غیر معمولی حد تک نرم دکھائی دیا۔
ٹرمپ کے سابق تجارتی مشیر کیلی این شا نے کہا کہ صدر اور کارنی کے درمیان گفتگو میں مثبت اشارے نظر آئے۔
"میں نے صدر کو مختلف عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں دیکھا ہے، اور پچھلے وزیرِاعظم کے ساتھ ان کے تعلقات کے مقابلے میں یہ ملاقات خاصی خوشگوار تھی۔”
کینیڈین آٹوموٹیو پارٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سربراہ فلیویو وولپے، جو ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کے سخت ناقد ہیں، نے بھی تبدیلی محسوس کی۔
انہوں نے کہا، "ٹرمپ کا لہجہ مختلف تھا۔ شاید وہ لاشعوری طور پر کینیڈا کو ایک سنجیدہ حریف کے طور پر تسلیم کر رہے تھے۔”
گاڑیوں کی صنعت کے حوالے سے بھی ٹرمپ نے نسبتاً معتدل مؤقف اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور کینیڈا دونوں کی آٹو انڈسٹری کی کامیابی باہمی مفاد میں ہے۔
ٹرمپ کے مطابق، "یہ ایک مشکل صورتِ حال ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنی گاڑیاں ہم خود بنائیں، لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ کینیڈا گاڑیاں بنانے میں کامیاب ہو۔ ہم فارمولے پر کام کر رہے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ ہم حل نکال لیں گے۔”
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر لہجے میں نرمی کے باوجود محصولات برقرار رہے تو اس کا فائدہ کینیڈا کی آٹو، اسٹیل، ایلومینیم اور لکڑی کی صنعتوں کو نہیں ہوگا۔