اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) دنیا میں تعلیم کو ترقی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ہر ملک چاہتا ہے کہ اس کے نوجوانUNIVERSITY حاصل کریں تاکہ وہ ملکی ترقی اور عالمی معیار کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں یونیورسٹیاں موجود ہیں، چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، سرکاری ہوں یا نجی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر دو ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ یہ بات سن کر اکثر لوگ حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ آخر آج کے دور میں بھی کوئی ملک ایسا ہو سکتا ہے جہاں یونیورسٹی نہ ہو۔ یہ دونوں ممالک ہیں ویٹیکن سٹی اور لکسمبرگ
ویٹیکن سٹی دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ویٹیکن سٹی دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے جو اٹلی کے دارالحکومت روم کے وسط میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ صرف 49 ہیکٹر یعنی تقریباً آدھا مربع کلومیٹر ہے، جبکہ اس کی آبادی ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ یہ علاقہ دراصل کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہاں پوپ کی رہائش گاہ اور سینٹ پیٹرز باسیلیکا جیسی عظیم عبادت گاہیں موجود ہیں۔اتنے محدود علاقے اور کم آبادی کے باعث یہاں کسی یونیورسٹی کا قیام عملاً ممکن ہی نہیں۔ ویٹیکن سٹی کے شہری یا مذہبی طلبہ عموماً روم یا اٹلی کے دیگر شہروں میں جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ویٹیکن سٹی میں بنیادی طور پر مذہبی ادارے اور مذہبی تعلیم دینے والے مدارس موجود ہیں لیکن باقاعدہ کسی یونیورسٹی کا ڈھانچہ قائم نہیں کیا گیا۔یہاں کے طلبہ جب اعلیٰ تعلیم کے خواہاں ہوتے ہیں تو وہ روم کی معروف جامعات جیسے یونیورسٹی آف روم “لا ساپینزا” یا اٹلی کے دیگر بڑے اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ گویا ویٹیکن سٹی کا تعلیمی ڈھانچہ مکمل طور پر اپنے ہمسایہ ملک اٹلی پر انحصار کرتا ہے۔
لکسمبرگ یورپ کا ترقی یافتہ مگر انوکھا ملک
دوسرا ملک جس میں یونیورسٹی نہیں، وہ ہے لکسمبرگ ۔ یہ ملک یورپ کے وسط میں واقع ہے اور اسے دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خوشحال ملک میں بھی روایتی معنوں میں کوئی بڑی یونیورسٹی موجود نہیں۔لکسمبرگ کی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک منفرد ماڈل اپنایا ہے۔ یہاں ریاستی سطح پر قائم تعلیمی ادارے موجود ہیں جو تکنیکی تعلیم اور مخصوص مضامین میں تربیت فراہم کرتے ہیں، لیکن وہ کسی مکمل جامعہ کے برابر نہیں سمجھے جاتے۔ یہاں کے طلبہ اگر میڈیکل، انجینئرنگ یا قانون جیسے پیشہ ورانہ مضامین پڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں قریبی ممالک جیسے فرانس، جرمنی یا بیلجیم جانا پڑتا ہے۔یہ بات اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ ایک طرف لکسمبرگ دنیا کے مالیاتی اور اقتصادی لحاظ سے طاقتور ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، دوسری طرف وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کے ڈھانچے کے لیے پڑوسی ممالک پر انحصار کرتا ہے۔
تعلیم کے مختلف ماڈلز
ویٹیکن سٹی اور لکسمبرگ کی مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق تعلیمی ڈھانچہ اپناتے ہیں۔ ویٹیکن سٹی چونکہ ایک مذہبی مرکز ہے اور اس کی آبادی نہایت کم ہے، اس لیے وہاں یونیورسٹی کی ضرورت بھی محدود ہے۔ دوسری جانب لکسمبرگ ایک ترقی یافتہ ملک ہے مگر اس نے اپنی معاشی اور تعلیمی حکمتِ عملی میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے قریبی ممالک کے اداروں پر انحصار کرے گا، اور اپنے وسائل کو دیگر شعبوں جیسے معیشت، بینکنگ اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرے گا۔
عالمی منظرنامہ
دنیا کے بیشتر ممالک میں یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ کچھ ملک جیسے امریکہ، برطانیہ اور چین اپنی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں اور ان کی جامعات دنیا بھر کے طلبہ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ لیکن ویٹیکن سٹی اور لکسمبرگ کا ماڈل ایک الگ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ماڈل ہمیں بتاتا ہے کہ تعلیم کی فراہمی کے لیے یونیورسٹی ہونا لازمی نہیں بلکہ چھوٹے ممالک اپنی ضروریات کے مطابق دوسرا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔یہ حیرت انگیز حقیقت کہ دنیا میں دو ممالک ایسے بھی ہیں جہاں یونیورسٹی موجود نہیں، ہمیں اس بات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ تعلیم کا تصور ہر ملک میں یکساں نہیں ہوتا۔ کچھ ممالک اپنے عوام کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے اپنے ادارے بناتے ہیں جبکہ کچھ اپنے جغرافیائی، سماجی اور معاشی حالات کے مطابق دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔
ویٹیکن سٹی اور لکسمبرگ دونوں نے اپنے اپنے انداز میں دنیا کو دکھایا ہے کہ تعلیم کے حصول کا سفر مختلف راستوں سے طے کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف مذہبی مرکز ہونے کی وجہ سے چھوٹا سا ویٹیکن سٹی ہے جہاں طلبہ اطراف کے شہروں میں پڑھتے ہیں، اور دوسری طرف خوشحال لکسمبرگ ہے جو اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلیمی تعاون پر انحصار کرتا ہے۔یہ مثالیں ہمیں یہ بھی سکھاتی ہیں کہ تعلیم محض اداروں کے قیام کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں عالمی تعاون، مواقع کی تلاش اور وسائل کے مؤثر استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔