اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں کا ٹرائل جنگی حالات میں ہو سکتا ہے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کےلیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔
آج سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آئے۔
عابد زبیری نے کہا کہ ہم نے سول ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار سے درخواست آئی، اچھے دلائل کا خیرمقدم کرتے ہیں، دیکھیں گے جب درخواست کا نمبر آتا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی، آئی ایس پی آر نے 102 افراد کے ٹرائل کی بات کی، اٹارنی جنرل اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے آپس میں اختلاف کیا
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، عدالت میں وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہیں وہ صورتحال بہتر طریقے سے بیان کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں اٹارنی جنرل کے بیان پر یقین ہے۔
عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میری رائے ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا مقدمہ نہیں چل سکتا، فوجیوں کے ٹرائل اور عدالت کے اختیارات پر بات نہیں کروں گا، آرمی ایکٹ کے تحت جرم آسکتا ہے یا نہیں؟ الگ سوال. یہ دیکھنا باقی ہے کہ افواج سے متعلق جرائم کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ججوں کی تقرری کا آرٹیکل 175(3) 1986 میں آیا، آپ جس عدالتی نظیر کی بات کر رہے ہیں، اب حالات اور واقعات بالکل مختلف ہیں۔ جسٹس منیب نے کہا کہ ایسا کیا ہے کہ آئین فوجی افسران کو تحفظ نہیں دیتا باقی شہریوں کو حاصل ہے؟
"آئین وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آئین میں درج بنیادی حقوق فوجیوں اور افسران پر لاگو نہیں ہوتے، میرے دلائل صرف سویلینز کے فوجی ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں، آئینی ترمیم کے بغیر پارلیمنٹ۔ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتے، 21ویں ترمیم نے یہ اصول قائم کیا کہ عام شہریوں کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔