اردو ورلڈ کینیڈا( ویب نیوز )سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کے لیے آئینی اختیار کو کب اور کیسے استعمال کیا جائے؟ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟
عدالت نے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت ہے، پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں 14 اور 17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں الیکشن آئین کے مطابق ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کے معاملے پر وضاحت کی ضرورت ہے، ہم آپ سب کو سننے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن وقت کی کمی کے باعث سماعت کو طول نہیں دیں گے، تیاری کریں، کیس کی سماعت پیر سے ہوگی۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ازخود نوٹس پر میرے کچھ تحفظات ہیں، ہمارے پاس دو اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹس پر لیا گیا، اس کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر سماعت ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر کو بھی کہا جاتا ہے جو پارٹی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں اسمبلیوں کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں کچھ سوالات شامل کیے ہیں، لیکن سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرنا ہے، ہم صرف آئین کی تشریح اور اس پر عملدرآمد کے لیے بیٹھے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہم آج نوٹس جاری کریں گے، ہم معاملے کو طول نہیں دینا چاہتے اور کوئی ابہام نہیں چھوڑنا چاہتے، ہم 2 بجے بیٹھے ہیں اور یہ ہمارے لیے غیر معمولی ہے۔
سماعت میں اٹارنی جنرل نے وقت کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری معاملات تک محدود رہیں گے، آئندہ ہفتے کیس کی تفصیلی سماعت کریں گے۔
الیکشن کرانے کی ذمہ داری کس کی؟ تاریخ دینے کا اختیارکس کے پاس ؟سپریم کورٹ کا لارجر بنچ آج سماعت کرے گا
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی نوٹس لیا جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس جماعت مندوخیل نے کہا کہ میں اس ازخود نوٹس کیس پر اپنی آبزرویشن دینا چاہتا ہوں، یہ ازخود نوٹس کیس نہیں بنتا۔
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ 90 دن میں انتخابات ہوں گے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے، معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔