نواز شریف کو وطن واپسی پر توشہ خانہ سے مرسڈیز کار لینے کے نیب ریفرنس میں بطور ملزم آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سابق وزیراعظم کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کو کالعدم قرار دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں بھی دائر کرنا ہوں گی۔
ہائی کورٹ ایون فیلڈ ریفرنس میں شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو پہلے ہی بری کر چکی ہے۔
پاناما جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد نیب نے نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس دائر کیے، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی۔
اسی ریفرنس میں شریک ملزمہ مریم نواز کو 7 سال قید جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا۔
نواز شریف کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے سے قبل سزا کے خلاف دونوں اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھیں اور سزائیں معطل کی گئی تھیں تاہم بیرون ملک ہونے کے باعث اپیلیں عدم پیروی پر خارج کر دی گئیں۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ جب اپیل کنندہ واپس آجائے تو وہ سزا کے خلاف اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔
نواز شریف کو اپنی اپیلیں دوبارہ شروع کرنے کے بعد فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا تاہم اس دوران ان کی سزا معطل کر دی جائے گی۔
مارچ 2020 میں نیب نے نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس اس وقت دائر کیا جب وہ ملک سے باہر تھے۔ اس کیس میں شریک ملزمان آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف عدالت میں پیش نہیں ہوئے
نواز شریف کو وطن واپسی پر ٹرائل کورٹ میں اس ریفرنس کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔