اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) 26اکتوبر کی رات نرس اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر جانے لگی تو ایک رکشہ پر بیٹھی ، نامعلوم شخص پہلے ہی اس رکشے میں سوار تھا۔
نرس نے بتایا کہ جب رکشہ چلانے والے نے راستہ بدلا تو اسے خطرہ محسوس ہوا۔وہ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو اور ڈرائیور نے کہا فکر نہ کرو، میں تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔رکشہ کافی دیر تک چلتا رہا ، مجھے عجیب محسوس ہونے لگا۔ نرس کا کہنا ہے کہ ‘جب وہ تھوڑا آگے گیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ رکشہ ڈرائیور اور رکشہ سوار آپس میں ملے ہوئے ہیں ،”میں نے پہلے اپنے بھائی کو فون کیا اور اس نے فون نہیں اٹھایا،” وہ کہتی ہیں میں پریشان تھی۔
میرے ہاتھ کانپنے لگے دل و دماغ میں سرگوشیاں آنے لگیں میں نے سوچا کہ میں بہادر ہوں۔میں خود کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی ، پھر میں نے ڈاکٹر طیبہ امجد کو بلایا تو اس نےلائیو لوکیشن بھیجنے کو کہا ،ڈاکٹر. طیبہ کا کہنا ہے کہ ‘میں نے اپنے شوہر کو وقت ضائع کیے بغیر گاڑی میں بٹھایا اور چلی گئی ،وہ کہتی ہیں کہ راستے میں اس نے چوک پر ایک پولیس والے کو دیکھا۔ "میں نے ان سے کہا بھائی ہماری گاڑی میں بیٹھو ایک عورت کی جان اور عزت خطرے میں ہے۔”
انہوں نے کہا کہ وہ قانونی طور پر نہیں جا سکتے کیونکہ وہ چھٹی پر گھر جا رہے تھے۔. جس پر میں نے کہا کہ اس وقت بھائی کو ایک عورت کو اغوا اور عصمت دری سے بچانا ہے جس کے بعد وہ ہماری گاڑی میں بیٹھ گئے۔ نرس کا کہنا ہے کہ اتنی دیر میں مجھے ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں گنے کے کھیت اور مچھلی کے فارم تھے ۔ میں نے مزاحمت کی جس پر انہوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور میرے چہرے پر تھپڑ مارا۔. میرا موبائل فون بھی چھین لیا گیا۔
نرس کا کہنا ہے کہ ، "وہ میری عصمت دری کرنے کی کوشش کرتے رہے اور میں خود کو ان کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش کرتی رہی۔”. میں نے مزاحمت نہیں چھوڑی۔ اتنے میں لوکیشن کی مدد سے ڈاکٹر. طیبہ اپنے وکیل شوہر اور پنجاب کانسٹیبلری کے کانسٹیبل محمد بلال کے ساتھ وہاں پہنچی۔ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں، "ہم نے انہیں دور سے دیکھا اور کہا کہ نرس کو چھوڑ دیں ،ہمارے ساتھ آنے والے پولیس اہلکار نے چار گولیاں چلائیں اور مزید پولیس کو بھی بلایا۔. پھر ملزم نرس کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔