اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)بحیرہ عرب کے سمندری طوفان کا رخ تبدیل ہوگیا، بائپر جوائے کراچی کے ساحل سے دور ہٹ گیا، سائیکلون آج پاکستانی حدود میں داخل ہوکر کیٹی بندر سے ٹکرائے گا، بائپر جوائے کیٹی بندر کے قریب اور کراچی سے تھوڑا دور چلا گیا ہے
محکمہ موسمیات کے مطابق بپر جوئے گزشتہ 6 گھنٹوں سے شمال مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے، سمندری طوفان کراچی کے جنوب سے 310 کلومیٹر دور ہے، سمندری طوفان کاٹی 240 کلومیٹر دور جنوب اور بندر سے جنوب مغرب میں ہے، طوفان کے مرکز اور اطراف میں چلنے والی ہوائیں 150 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے، نظام کے مرکز کے ارد گرد سمندر بہت کھردرا ہے، نظام کے مرکز کے گرد 30 فٹ تک لہریں ہیں۔
کیٹی بندر صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے اور گھارو سے 120 کلومیٹر دور ہے۔
کیٹی بندر کراچی سے 200 کلومیٹر جنوب مشرق میں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کا یہ ساتواں بڑا ڈیلٹا تیزی سے دھلتا جا رہا ہے۔ کیٹی بندر میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ سمندر ہر روز 80 ایکڑ زرعی اراضی کو اپنے زیر اثر لے رہا ہے اور سالوں سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی اپنی دولت کے لیے مشہور اور درآمد و برآمد کا مرکز رہنے والا یہ شہر ویرانی کی زندہ تصویر بن چکا ہے۔ 19ویں صدی میں یہاں کی آبادی ہزاروں میں تھی لیکن مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے آج صرف چند گاؤں رہ گئے ہیں۔
سمندر کی مسلسل پیش قدمی کے باعث کٹی بندر میں قابل کاشت زمین اور میٹھے پانی کی کمی ہے۔ جنگلی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
زراعت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ماہی گیری ہے۔ لوگ کئی دنوں تک بحیرہ عرب میں مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور واپس آکر مچھلی بازار میں فروخت کرتے ہیں جہاں سے خریدار مچھلی کو کراچی اور دیگر شہروں میں لے جاتے ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے 2004 کے اعداد و شمار کے مطابق کٹی بندر میں تقریباً 42 دیہات تھے جب کہ اس کا رقبہ تقریباً 60 ہزار 969 ہیکٹر تھا لیکن ان 28 گاؤں میں سے 46 ہزار 137 ہیکٹر کا رقبہ ضائع ہو گیا
ایک اندازے کے مطابق اب تحصیل کیٹی بندر میں تقریباً 19 دیہات اور 29 دیہات ہیں جبکہ اس کی کل آبادی تقریباً 12 ہزار ہے۔
کیٹی بندر کی تاریخی اہمیت
ماضی میں کیٹی بندر بہت اہم تھا اور ایک بندرگاہی شہر تھا جہاں سے 19ویں صدی کے آخر میں اناج اور دیگر سامان کراچی، گجرات اور دیگر علاقوں میں بھیجا جاتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ کیی بندر کی بندرگاہ دیبل کی بندرگاہ کی باقیات پر بنائی گئی تھی، وہ جگہ جہاں محمد بن قاسم کی فوج عراق سے پہنچی تھی۔
کیٹی بندر کے مقامی عمائدین کا کہنا ہے کہ 75 سالوں میں کیٹی بندر قصبہ تین بار اپنی آبادی کو منتقل کر چکا ہے، سطح سمندر بڑھنے سے آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے۔ یہاں کے لوگ میٹھے پانی کے لیے مکمل طور پر دریائے سندھ پر منحصر ہیں۔
ماضی کا یہ عظیم بندرگاہی شہر دریائے سندھ پر بنائے گئے ڈیموں کی وجہ سے سمندری کٹاؤ کا شکار ہے اور اپنی سابقہ اہمیت کھو چکا ہے۔
پاکستان کی تیسری بڑی بندرگاہ بننے کا امکان
کیٹی بندر ملکی معیشت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس نے تقریباً 150 سال تک بندرگاہ کے طور پر کام کیا اور یہ پاکستان کی تیسری بڑی بندرگاہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مطابق یہ علاقہ کسی زمانے میں کافی خوبصورت تھا، یہاں بڑے پیمانے پر زراعت ہوتی تھی اور آبی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے دور دور سے کشتیاں اس علاقے میں آتی تھیں۔
ماضی میں کیٹی بندر کو حقیقی بندرگاہ بنانے کے لیے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اب تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔