اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کو چھوڑ دیں الیکشن کی تاریخ دیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ الیکشن کب ہوں گے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں، گزشتہ روز اس حوالے سے کافی ابہام تھا، گورنر نے الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دے دیا ہے، گورنر نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن تمام جماعتوں سے مشاورت کرے
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین کہتا ہے کہ انتخابات 90 دن میں ہونے ہیں
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ 90 دن پورے ہونے میں ابھی کافی وقت ہے، جس پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آپ بتا دیں کہ الیکشن کب ہوں گے، ہم اس کی بات کر رہے ہیں جو آئین میں لکھا ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر چھوڑیں اور الیکشن کی تاریخ دیں، آپ اتنا کام کر رہے ہیں، آپ خود الیکشن کی تاریخ دیں۔
اسد عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات سے متعلق شیڈول جاری کر دیا، ضمنی انتخابات پورے ملک میں ہونے ہیں، ضمنی شیڈول جاری کرتے وقت معاشی صورتحال کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے کہا کہ اسد عمر صاحب آج الیکشن کمیشن سے خوش ہوں
عدالت نے اسد عمر سے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں فل بنچ تشکیل دیا جائے تاہم پی ٹی آئی نے فل بنچ نہ بنانے کی استدعا کی۔
گورنر پنجاب کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی۔
عدالت نے گورنر پنجاب کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت چاہیے، جس پر وکیل نے کہا کہ مجھے 7 دن کا وقت چاہیے۔
اسد عمر نے کہا کہ جواب کے لیے مزید 7 دن دیے جائیں تو کافی وقت گزر جائے گا۔ 7 دن دینے کا مطلب ہے کہ اسمبلی تحلیل ہوئے 22 دن گزر چکے ہوں گے۔
لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر آپ عدالت آئے ہیں تو پریشان نہ ہوں، 4 یا 5 دن بعد کچھ نہیں ہوتا