اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع کولگام میں بھارتی فوج کا 12 روزہ آپریشن نہ صرف اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔
بلکہ اس دوران بھارتی فوجیوں کی حالت زار نے دنیا بھر میں بھارتی فوج کی عسکری صلاحیت اور منصوبہ بندی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق طویل محاصرے اور مسلسل ناکامی کے نتیجے میں کئی بھارتی فوجی بھوک اور پیاس کے باعث مٹی کھانے پر مجبور ہو گئے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ آپریشن ایک بڑے پیمانے کی انٹیلی جنس رپورٹ کے بعد شروع کیا گیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کولگام کے جنگلات اور پہاڑی علاقوں میں کشمیری مزاحمتی جنگجوؤں کا ایک مضبوط گروہ چھپا ہوا ہے۔ بھارتی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چند دنوں میں علاقے کو باغیوں سے "پاک” کر دے گی، لیکن یہ آپریشن طویل اور پیچیدہ لڑائی میں بدل گیا۔
آپریشن میں بھارتی فوج کے خصوصی کمانڈو، نیم فوجی دستے، اور فضائیہ کے ہیلی کاپٹر شامل تھے۔ ساتھ ہی ڈرون ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔ اس سب کے باوجود بھارتی فوج کو وہ نتائج نہیں مل سکے جن کا اعلان آپریشن کے آغاز میں کیا گیا تھا۔ذرائع کے مطابق آپریشن کے دوران باغیوں نے گوریلا جنگ کی حکمت عملی اپنائی۔ انہوں نے پہاڑیوں اور گھنے جنگلات میں بارودی سرنگیں نصب کر رکھی تھیں، اور حملے کے بعد فوراً اپنی پوزیشن بدل لیتے تھے۔ بھارتی فوج کو شدید زمینی مزاحمت کا سامنا رہا اور کئی بار محاصرہ ٹوٹ گیا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس دوران 9 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے، جن میں سے کچھ بارودی دھماکوں میں مارے گئے جبکہ دیگر جھڑپوں میں جان سے گئے۔ مزید 14 فوجی، جن میں ایک کرنل بھی شامل ہے، شدید زخمی ہوئے۔اس آپریشن کے دوران سب سے زیادہ توجہ اس خبر نے حاصل کی کہ کئی بھارتی فوجی بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر مٹی کھانے پر مجبور ہو گئے۔ ایک بھارتی فوجی نے آپریشن کے آخری دن ایک نجی پیغام میں کہا کہ ہم پانچ دن سے کھانے پینے کی اشیاء سے محروم ہیں۔ پانی کے ذخائر ختم ہو گئے ہیں اور جنگل میں گھیراؤ کی وجہ سے رسد پہنچانا ناممکن ہو گیا ہے۔ ہم زندہ رہنے کے لیے مٹی اور پتے کھا رہے ہیں۔”یہ انکشاف بھارتی فوج کی رسد کی ناقص منصوبہ بندی اور آپریشن کے دوران بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔بھارتی فوج نے محاصرے کو سخت کرنے اور باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہیلی کاپٹر اور ڈرون استعمال کیے، لیکن گھنے جنگلات اور دشوار گزار راستوں نے ان کی افادیت کو محدود کر دیا۔ کئی بار ڈرون فوٹیج میں باغی نظر آنے کے باوجود انہیں نشانہ بنانے میں تاخیر یا ناکامی ہوئی۔
فوجی ماہرین کے مطابق یہ ناکامی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارتی افواج کو گوریلا جنگ کے ماحول میں مؤثر کارروائی کے لیے مزید تربیت اور بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
مزاحمتی جنگجوؤں نے آپریشن کے دوران نہ صرف بھارتی فوج کا محاصرہ توڑ دیا بلکہ وہ جنگل کے اندر مزید گہرائی میں منتقل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے پاس محدود ہتھیار تھے، لیکن علاقے کا جغرافیہ اور مقامی حمایت ان کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہوا۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی دیہاتیوں نے باغیوں کو خوراک، پانی اور چھپنے کی جگہ فراہم کی، جس کی وجہ سے بھارتی فوج کا محاصرہ غیر مؤثر ہو گیا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے کولگام آپریشن کو بھارتی فوج کی "سب سے بڑی شرمناک ناکامی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار اپنی سیاسی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایسے فوجی آپریشن کر رہی ہے۔حریت رہنماؤں نے کہا کہ "بھارتی فوج جتنی بھی طاقت استعمال کر لے، کشمیری عوام کے حوصلے توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کولگام کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کا فوجی تسلط دیرپا نہیں ہو سکتا۔”دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی مرکزی میڈیا نے اس ناکامی پر یا تو خاموشی اختیار کی یا پھر خبر کو معمولی واقعہ قرار دے کر پیش کیا۔ کچھ آزاد صحافیوں اور سوشل میڈیا رپورٹس نے فوجیوں کے مٹی کھانے کے واقعے کو اجاگر کیا، جس پر بھارت میں شدید بحث شروع ہو گئی۔سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر بھارتی فوج اپنے فوجیوں کو کھانا اور پانی تک نہیں پہنچا سکتی تو وہ کشمیری عوام کو کب تک قابو میں رکھ سکے گی؟
کولگام آپریشن کی ناکامی سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو عوامی حمایت حاصل نہیں، بلکہ مزاحمتی تحریک کو مقامی سطح پر مدد ملتی رہتی ہے۔یہ ناکامی نہ صرف بھارتی فوج کے مورال پر اثر ڈالے گی بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کی عسکری پالیسی پر سوالات اٹھائے گی۔کولگام کے مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ ناکامی کشمیری عوام کے عزم کی فتح ہے۔ ”