اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)4 سال قبل منظور ہونے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ مذہبی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کی جانب سے اس میں ترامیم کی تجویز کے بعد ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی اس پر بحث جاری ہے
اس قانون کے خلاف درخواست جماعت اسلامی کی جانب سے عمران شفیق ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔ عمران شفیق ایڈووکیٹ کے مطابق انہوں نے یہ پٹیشن پاکستان کے آئین کے تحت دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا قانون متعارف نہیں کرایا جا سکتا جو شریعت سے متصادم ہو۔
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 کیا ہے؟
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ ٹرانس جینڈر لوگوں کو خود کی شناخت اور اپنی جنس تبدیل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کو یقینی بنانے کے پابند ہیں کہ خواجہ سرا جو بھی شناخت چاہے، ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کیا جائے۔
ایکٹ پاکستانی شہریوں کے طور پر ان کے تمام حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ انہیں ملازمت، تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی کی قانونی حیثیت دی گئی ہے جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
خواجہ سراء کو سہولیات سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
ٹرانس جینڈر لوگ
یہ ایکٹ ٹرانسجینڈرزم کی تین اقسام کے ہونے کی تعریف کرتا ہے: پہلی انٹرسیکس ٹرانسجینڈرزم ہے، جس کی تعریف مردوں اور عورتوں دونوں کی جینیاتی خصوصیات کے طور پر کی گئی ہے پیدائشی بے ضابطگیوں کا ہونا
دوسرے نمبر پر وہ ہیں جو پیدائشی طور پر مرد ہیں لیکن بعد میں دوبارہ تفویض کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے وہ ہیں جو پیدائش کے وقت اپنے آپ کو مختلف یا اپنی جنس سے مطابقت نہیں رکھتے۔
قمر نسیم خواجہ سرا ء کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں اور مذکورہ قانون کے حوالے سے مہم چلانے والوں میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انٹرسیکس سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیدائشی طور پر منحرف ہوتے ہیں۔ دوسرا نمبر ان مردوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو اپنے اعضا میں طبی ترمیم کراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو اپنی پیدائشی جنس یا جنس کے مطابق نہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ جیسے ایک پیدا ہونے والا لڑکا لڑکی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا پیدا ہونے والی لڑکی لڑکا ہونے کا دعوی کرتی ہے۔
اس ایکٹ پر جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کو کیا اعتراض ہے؟
جماعت اسلامی کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کرنے والے ایڈووکیٹ عمران شفیق نے کہا کہ ہم نے آئین پاکستان کی روح کے ساتھ سال 2018 میں متعارف کرائے گئے اس ایکٹ کو چیلنج کیا ہے۔ ہم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو پیدا کرنے کا حق صرف اللہ کو ہے۔
اللہ نے مرد اور عورت کو پیدا کیا۔ قدرت کی تخلیق میں بڑی حکمت ہے۔ عورت کو مرد بننے کا اور مرد کو عورت بننے کا کوئی حق نہیں۔ ایسا کرنا خلاف شریعت ہے اور بہت سی برائیوں کا باعث ہے۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ کے مطابق کسی مرد یا عورت کو اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے
اگر ایسا فرد جو مرد کے سب سے قریب ہے تو وہ مرد ہوگا اور اگر عورت کے قریب ہے تو وہ عورت ہوگی۔ اب اگر کسی نامکمل مرد یا عورت کو علاج آپریشن کے ذریعے مکمل نر یا مادہ بنایا جا سکتا ہے تو اس کی اجازت ہے لیکن ہم جنس پرست عورت اور مرد اپنی مرضی سے اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی جنس تبدیلی ایک بڑی
سماجی خرابی کا باعث بن رہی ہے، جسے روکنا چاہیے اور ایسے قانون کو منسوخ کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق اس بل کو سینیٹ نے 2018 میں منظور کیا تھا، یہ بل ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی چار خواتین سینیٹرز نے تیار کیا تھا۔ ہمیں اس بل پر تب بھی اعتراضات تھے اور اب بھی ہیں۔
مشتاق احمد خان کا دعوی ہے کہ اس قانون پر انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے ہیں جب کہ پاکستان کے اہم ترین آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ جنس کی تبدیلی کا معاملہ میڈیکل بورڈ کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیے۔
میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر کسی کو بھی جنس دوبارہ تفویض کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف شریعت کے خلاف ہے بلکہ وراثت کے اسلامی قانون کے بھی خلاف ہے اور خواتین کی عفت و عصمت کے بھی خلاف ہے۔ ۔
مشتاق احمد خان کا دعوی ہے کہ سرکاری رپورٹس کے مطابق تقریبا 40,000 افراد نے نادرا کی سرکاری دستاویزات میں اپنی جنس تبدیل کی ہے۔ ان میں بڑی تعداد مردوں کی ہے جنہوں نے اپنی شناختی دستاویز میں جنس تبدیل کی ہے۔ اس سے معاشرے میں شدید انتشار پیدا ہو رہا ہے ہمیں اپنے معاشرے کو اس افراتفری سے بچانا ہے۔
پی پی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے مطابق یہ بل 2018میں منظور ہوا
پہلے یہ بل قائمہ کمیٹی سینیٹ نے پاس کیا اس کے بعد پارلیمنٹ نے اس کی مشترکہ طور پر منظور دی کا مقصد خواجہ سرائوںکے حقوق کا تحفظ تھا
بل کو اب وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے اور اس کے پاس یہ اختیارہے کہ وہ اس کے خلاف فیصلہ دے دے فرحت اللہ بابر کے مطابق یہ بل اسلام مخالف نہیں اور اس میں ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے جو کہ اسلام کے خلاف ہو تاہم ترمیم کی گنجائش بہر حال موجود رہتی ہے ان کے مطابق اس قانون کی بہتری کے لئے بات کی جاسکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ بل اسلام کے خلاف ہے یہ بات درست نہیں ہے
بل کی منظور ی کے چار سال بعد مخالفت کیوں کی جارہی ؟؟؟؟؟
جماعت اسلامی نے اس وقت بھی بل کی مخالفت کی تھی اور اب بھی مخالف ہے تاہم ان کے پاس پارلیمان میں اکثریت نہیں کہ وہ بل کو منظور ہونے سے روک سکتے جماعت اسلامی کے مطابق وہ سیاسی جماعتو ں کو قائل کرتی رہی کہ یہ بل درست نہیں ہے
جے آئی پاکستان کے جنرل سیکرٹری امیر اعظیم کے مطابق یہ کہنا غلط ہے کہ ہم اس بل پر خاموش تھے ہم نے تب بھی اس کی مخالفت کی تھی اور آج بھی خلاف ہیں ان کے مطابق جب حکومتی ڈیٹا سامنے آیا کہ ہزاروں افراد نے جنس تبدیل کرا لی ہے اور حقیقت آشکار ہوئی تو اب شور مچایا جارہا ہے ۔