اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) دنیا بھر میں بیٹری ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں لیتھیئم کی جگہ کیلشیئم یا میگنیشیم پر مبنی بیٹریاں عام ہو سکتی ہیں۔ یہ پیش رفت بیٹری انڈسٹری میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔موجودہ دور میں موبائل فون، لیپ ٹاپ، الیکٹرک کاریں اور توانائی کے دیگر ذخیرہ کرنے والے نظام زیادہ تر لیتھیئم آئن بیٹریوں پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، لیتھیئم اور کوبالٹ جیسے عناصر مہنگے، محدود وسائل رکھتے ہیں، اور ان کی کان کنی ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ، لیتھیئم بیٹریاں زیادہ گرم ہونے (Overheating) کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں، جو نہ صرف ان کی کارکردگی بلکہ سفٹی (Safety) کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق کیلشیئم اور میگنیشیم دونوں عناصر زمین کی پرت میں وافر مقدار میں موجود ہیں، جن کی دستیابی میں کوئی مسئلہ نہیں۔
کیلشیئم ایک "دو ظرفی آئن” (Divalent Ion) ہے، یعنی اس کا مثبت چارج +2 ہوتا ہے۔ اس خصوصیت کی بدولت ہر آئن زیادہ توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے بیٹری کی توانائی کی گنجائش (Energy Density) میں اضافہ ممکن ہے۔چینی اکیڈمی آف سائنسز (Chinese Academy of Sciences) کی جانب سے تیار کیے گئے ایک **کیلشیئم آئن بیٹری پروٹو ٹائپ میں یہ دیکھا گیا کہ تقریباً 1000 چارج سائیکل مکمل ہونے کے باوجود بیٹری نے اپنی 84 فیصد اصل صلاحیت برقرار رکھی۔یہ نتائج اس بات کی علامت ہیں کہ کیلشیئم بیٹریاں نہ صرف پائیدار ہیں بلکہ طویل عرصے تک کارآمد رہ سکتی ہیں۔
کیلشیئم کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کا گلنے کا درجہ حرارت (Melting Point) نسبتاً زیادہ ہے، جس سے بیٹری زیادہ درجہ حرارت کے اثرات سے محفوظ رہتی ہے۔ اس خصوصیت کے باعث کیلشیئم بیٹریاں زیادہ محفوظ (Safer) قرار دی جا رہی ہیں۔
اگرچہ کیلشیئم بیٹریوں پر تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن سائنسی ماہرین کو امید ہے کہ آنے والے چند برسوں میں لیتھیئم پر انحصار کم ہو جائے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان بیٹریوں کی **چارجنگ اسپیڈ، توانائی کی کارکردگی اور لاگت کو مزید بہتر بنا لیا گیا تو کیلشیئم بیٹریاں مستقبل کی الیکٹرک گاڑیوں، اسٹوریج سسٹمز اور الیکٹرانک آلات کے لیے ایک انقلابی حل ثابت ہو سکتی ہیں۔