61
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) جیسے جیسے کینیڈا اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر رہی ہے۔
کینیڈین عوام نے اس تنازعے کو صرف حکومتی سطح پر محدود نہیں رکھا، بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی اپنا ردعمل ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔ بہت سے شہریوں نے نہ صرف امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہے بلکہ امریکہ کا سفر کرنا بھی بند کر دیا ہے، اور "خالص کینیڈین خریداری” کو اپنی نئی ترجیح بنا لیا ہے۔
امریکی چیز یں نہ خریدنےکا فیصلہ
کینیڈین شہری اب اپنے خریداری کے فیصلوں میں زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ ایک نجی ادارے کے سروے میں لوگوں نے بتایا کہ وہ اب "میڈ اِن کینیڈا” اشیاء تلاش کر رہے ہیں، اور جب مقامی متبادل نہ ہو تو "امریکہ کے سوا کچھ بھی” والی سوچ کو اپناتے ہیں۔
ریٹا بیلی نامی شہری نے کہاکہ میں ہر چیز پر لیبل چیک کرتی ہوں تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ یہ کینیڈا یا کسی تجارتی دوست ملک میں بنی ہو۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس طریقے سے خریداری کرنے سے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ "کیا مجھے واقعی اس چیز کی ضرورت ہے؟” — اور یہ ان کی مالی، ذہنی اور روحانی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔
ریبڈ لیبل ریڈرز
کئی لوگوں نے بتایا کہ وہ ریبڈ لیبل ریڈرز” بن چکے ہیں، یعنی وہ ہر شے کا ماخذ جانچنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لاری شارپ جو اپنی اہلیہ کے ساتھ امریکہ کے قریبی علاقے میں رہتے ہیں کہتے ہیں > "جب سے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، ہم نے امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کیا۔ اب ہم صرف کینیڈین مصنوعات خریدتے ہیں۔”
امریکہ نہ جانے کا فیصلہ
کئی شہریوں نے کہا کہ انہوں نے امریکہ جانا بند کر دیا ہے، حالانکہ وہ پہلے باقاعدگی سے وہاں جاتے تھے۔جینو پیالونے جو اونٹاریو کے سرحدی شہر تھورالڈ میں رہتے ہیں، کہتے ہیں > "میں ہر مہینے دو بار امریکہ جاتا تھا — خریداری، پیٹرول، کھانے یا گالف ٹور کے لیے اب میں وہاں نہیں جاتا، کیونکہ میں ان کی معیشت کو کیوں سپورٹ کروں جب وہ ہماری معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟”
مقامی متبادل اور نئی ترجیحات
کچھ افراد نے امریکہ میں اپنی جائیدادیں یا سرمایہ کاری بھی واپس کینیڈا منتقل کر لی ہیں۔ کیرن ماؤنٹ نے لکھا > "میں اپنی سبزی خریدنے کے لیے مقامی فارمرز مارکیٹ جاتی ہوں۔ جب کینیڈین متبادل دستیاب نہ ہو تو میں کسی غیر امریکی آپشن کو ترجیح دیتی ہوں۔”انہوں نے کہا کہ وہ سردیوں میں میکسیکو سے پھل اور سبزیاں خرید رہی ہیں، جو کہ انہوں نے جنوری 2025 سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔بس ایک چیز ہے جس پر وہ سمجھوتہ کرتی ہیں "اسمارٹ وول موزے۔ وہ واقعی اچھے ہیں!”
"زندگی بھر کا بائیکاٹ”
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اب کبھی بھی بغیر سوچے سمجھے خریداری نہیں کریں گے۔گیری سیمپل نے کہا کہ > "میں شاید اب کبھی ایسی چیز نہ خریدوں جو کینیڈا میں نہ بنی ہو۔ جتنا یہ تنازعہ بڑھتا ہے، میں اتنا ہی غصے میں آتا ہوں۔” ریٹا بیلی ، جن کی عمر 75 سال ہے، کہتی ہیں "مجھے نہیں لگتا کہ میری زندگی میں یہ رویہ بدلے گا۔ میں پیچھے نہیں ہٹوں گی، اور دعا ہے کہ ہمارے لیڈر بھی پیچھے نہ ہٹیں۔”
تجزیہ: جذبات، خود مختاری اور معیشت
کینیڈا میں امریکی مصنوعات اور سفر کا بائیکاٹ محض ایک احتجاج نہیں بلکہ ایک خود انحصاری کی تحریک بنتا جا رہا ہے۔ لوگ اب صرف قیمت پر نہیں بلکہ قومی وقار، معیشتی خود مختاری اور سیاسی پیغام پر بھی نظر رکھ رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بائیکاٹ کینیڈا کے لیے کتنا پائیدار اور مؤثر ہے؟ کیا یہ اقدام امریکی پالیسیوں پر دباؤ ڈال سکتا ہے، یا صرف کینیڈین صارفین کو نقصان پہنچائے گا؟فی الحال تو ایک بات واضح ہےکینیڈین عوام نے فیصلہ کر لیا ہے — "ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے!”