اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدلیہ کے ساتھ کیا خوبصورت طریقہ اور کیا انصاف کیا ہے۔ پہلے ججوں کا مذاق اڑایا، پھر کہا کہ اب وہ آڈیوز کی صداقت کی چھان بین کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی شامل ہیں۔
مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان آئینی عہدہ ہے، فرض کریں کہ چیف جسٹس کا چارج کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا۔
حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اعتراض اٹھایا، اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بنچ کی جانب سے اعتراضات پڑھ کر سنائے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو ایک چیز یاد آرہی ہے، ان نکات پر دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اس بات کی طرف جارہے ہیں کہ ہم میں سے 3 ججز متنازعہ ہیں؟ پھر آپ کو بتانا ہوگا کہ یہ کس بنیاد پر فرض کیا گیا ، دوسرا اور اہم مسئلہ عدلیہ کی آزادی کا ہے، میں چاہوں گا کہ آپ دوسرے اور اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائیں۔
اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنائے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیک ہونے والی آڈیوز چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہیں۔ ? اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے پر صرف کمیشن بنایا ہے، صرف حقائق جاننے کے لیے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس پر کابینہ کے سینئر رکن نے پریس کانفرنس بھی کی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ نے ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کی ہے، پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز بھی چلائی گئیں، کیا یہ سچ ہے کہ جو لوگ سچ نہیں جانتے؟ ۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی؟ کیا ایسی لاپرواہی برداشت کی جا سکتی ہے؟ ایسے بیان کے بعد وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ استعفی دے دیتے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کیا ایک وزیر کے بیان کو پوری حکومت کا بیان کہا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے پریس کانفرنس کی، عدالت دیکھ لے کہ وزیر داخلہ کا بیان 19 مئی سے پہلے کا ہے یا بعد میں
چیف جسٹس نے کہا کہ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے۔ پہلے انہوں نے ججوں کا مذاق اڑایا، پھر کہا کہ اب وہ آڈیوز کی صداقت کی چھان بین کریں گے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جس جج کو کیس سے ہٹانا چاہتے ہیں اس کا نام لے کر آڈیو بنانا بہت آسان ہو گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیو کس نے لگائی؟ کیا حکومت نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت اس لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، حکومت اس معاملے کو کمیشن کے ذریعے بھی دیکھے گی۔