11
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) بنگلادیش کی طلبا تحریک کے سرکردہ رہنما اور سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے طویل دورِ حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرنے والے عثمان ہادی کی میت وطن واپس پہنچ گئی ہے۔
ان کی میت بنگلادیشی پرچم میں لپٹی ہوئی آج ڈھاکا لائی گئی، جہاں ایئرپورٹ پر لاکھوں طلبا، حامیوں اور سیاسی کارکنان نے انہیں آخری سلام پیش کیا۔عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق عثمان ہادی کو ایک انتخابی مہم کے دوران موٹر سائیکل سوار نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔ ابتدا میں انہیں ڈھاکا کے مختلف اسپتالوں میں علاج فراہم کیا گیا، تاہم حالت تشویشناک ہونے پر 15 دسمبر کو سنگاپور منتقل کیا گیا، جہاں وہ دورانِ علاج دم توڑ گئے۔عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے عثمان ہادی کی نمازِ جنازہ کے مقام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نمازِ جنازہ کل دوپہر 2 بجے بنگلادیشی پارلیمنٹ کے ساؤتھ پلازا میں ادا کی جائے گی۔ اس غیر معمولی فیصلے نے سیاسی اور عوامی حلقوں میں خاصی توجہ حاصل کی ہے۔
حکام نے جنازے کے موقع پر سخت سیکیورٹی انتظامات کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی قسم کے بیگ یا بھاری سامان ساتھ نہ لائیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور اس کے اطراف میں ڈرون اڑانے پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔چیف ایڈوائزر محمد یونس نے عثمان ہادی کے انتقال پر ہفتے کے روز ایک روزہ قومی سوگ کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس دوران قومی پرچم سرنگوں رہے گا اور سرکاری تقریبات محدود رکھی جائیں گی۔
عثمان ہادی کے انتقال کے بعد ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں شدید احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جن کے دوران بعض مقامات پر سابق حکمران جماعت عوامی لیگ کے دفاتر کو نذرِ آتش کیا گیا۔ طلبا تنظیموں اور سیاسی حلقوں نے اس قتل کو جمہوری آواز کو دبانے کی سازش قرار دیتے ہوئے شفاف تحقیقات اور ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔