21
اردو ورلڈ کینیڈا( ویب نیوز ) دنیا کی نظریں واشنگٹن پر جمی رہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور آٹھ مسلم ممالک کے سربراہان ایک ہی میز پر اکٹھے ہوئے۔
وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد، ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان، انڈونیشیا کے صدر پرابوو سبینتو، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور متحدہ عرب امارات کے سربراہ نے امریکی صدر کے ساتھ طویل گفتگو کی۔یہ ملاقات محض ایک رسمی اجلاس نہیں تھی بلکہ غزہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور خطے کے مستقبل کے بارے میں ایک فیصلہ کن لمحہ سمجھی جا رہی ہے۔
غزہ اس وقت کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہزاروں شہادتیں، لاکھوں بے گھر، اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے خطے کو انسانی المیے میں دھکیل دیا ہے۔ امریکہ، جو ایک طرف اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے، اب چاہتا ہے کہ مسلم دنیا اس جنگ کی قیمت اپنے کردار سے ادا کرے — چاہے وہ امن فوج کی تعیناتی ہو یا تعمیرِ نو کے لیے مالی امداد۔
ٹرمپ کا مؤقف
صدر ٹرمپ نے کھلے الفاظ میں کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا “حماس کو انعام دینے” کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے فوری جنگ بندی اور 38 مغویوں کی رہائی پر زور دیا اور ساتھ ہی مسلم ممالک سے اپیل کی کہ وہ غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
مسلم رہنماؤں کی پوزیشن
ملاقات کے دوران ہر رہنما نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ سعودی عرب اور قطر نے تعمیرِ نو میں مالی تعاون کا عندیہ دیا، ترکیہ نے سیاسی حل پر زور دیا، جبکہ پاکستان اور انڈونیشیا نے انسانی امداد کو اولین ترجیح قرار دیا۔ تاہم کوئی مشترکہ لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ اجلاس کے بعد سب رہنما خاموشی سے ہال سے نکل گئے، البتہ ٹرمپ نے میڈیا کو بتایا کہ “یہ ملاقات بڑی کامیابی رہی ہے۔”
مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟
1. امن فوج کا امکان
امریکی صدر ٹرمپ نے مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں ایک مشترکہ امن فوج بھیجنے پر غور کریں تاکہ اسرائیلی فوج کے انخلا کو ممکن بنایا جا سکے۔ اگر یہ منصوبہ حقیقت اختیار کرتا ہے تو بظاہر اس سے فلسطینی عوام کو وقتی سکون اور خطے میں امن و امان قائم کرنے کی امید پیدا ہوگی۔ تاہم یہ اقدام نئے خطرات بھی جنم دے سکتا ہے، کیونکہ حماس اور فلسطینی عوام اسے "غیر ملکی مداخلت” یا ایک اور قبضے کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل اس منصوبے کو اپنے لیے ایک ریلیف سمجھے گا کیونکہ اس طرح وہ براہِ راست فوجی دباؤ سے بچ نکلے گا۔
2. تعمیرِ نو کا بوجھ
غزہ اس وقت کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے اور اس کی تعمیرِ نو کے لیے کھربوں ڈالر درکار ہیں۔ قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے وسائل سے بھرپور ممالک مالی تعاون فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا جیسے ممالک تکنیکی مہارت اور افرادی قوت کے ذریعے اس عمل میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مرحلہ مسلم دنیا کو عالمی سطح پر اپنی "سیاسی وزن داری” بڑھانے کا موقع دے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ تعاون دیرپا ہوگا یا صرف وقتی ریلیف تک محدود رہ جائے گا۔
3. فلسطینی ریاست کی بحث
سب سے بڑا اور پیچیدہ سوال یہ ہے کہ کیا فلسطین کو باقاعدہ طور پر ایک خودمختار ریاست تسلیم کیا جائے گا؟ یورپ اور کئی مسلم ممالک اس کے حق میں ہیں، جبکہ امریکہ اور اسرائیل اب بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا "حماس کو انعام دینے” کے مترادف ہوگا۔ یہ مؤقف مستقبل میں نہ صرف مسلم دنیا اور امریکہ کے تعلقات پر اثر ڈال سکتا ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو بھی ایک بار پھر تعطل کا شکار کر سکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو تعمیرِ نو اور امن فوج کے اقدامات بھی دیرپا نتائج نہیں دے پائیں گے۔
کس کو کیافائدہ ہوگا؟
اس ملاقات کے ممکنہ نتائج کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے فائدہ امریکہ اور صدر ٹرمپ کو ہوگا، جو اپنی انتخابی اور سفارتی سیاست میں یہ دعویٰ کر سکیں گے کہ انہوں نے مسلم دنیا کو اپنی شرائط پر ساتھ ملا کر ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کو بھی اس عمل سے ریلیف ملے گا کیونکہ غزہ میں براہِ راست فوجی دباؤ کم ہو جائے گا اور عالمی سطح پر اس پر ہونے والی سخت تنقید بھی کسی حد تک ہلکی پڑ جائے گی۔ مسلم ممالک کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ خود کو ایک "امن کے ضامن” کے طور پر پیش کریں، جس سے نہ صرف ان کی بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ ہوگا بلکہ عالمی فیصلہ سازی میں ان کا کردار بھی زیادہ نمایاں ہو جائے گا۔ البتہ فلسطینی عوام کے حصے میں فوری طور پر تعمیرِ نو، انسانی امداد اور وقتی سکون تو ضرور آئے گا، لیکن ایک آزاد اور مکمل فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب بدستور ادھورا ہی رہے گا۔
چیلنجز
اگرچہ یہ ملاقات ایک بڑی سفارتی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے، لیکن اس کے راستے میں کئی بڑے چیلنجز حائل ہیں۔ سب سے پہلے تو مسلم ممالک کے آپسی اختلافات ہیں، جو کسی بھی مشترکہ حکمتِ عملی کو عملی جامہ پہنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ مختلف ممالک کے اپنے علاقائی مفادات، سیاسی نظریات اور عالمی طاقتوں سے تعلقات یکساں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ایک متفقہ لائحہ عمل بنانا مشکل ہو سکتا ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج خود فلسطینی عوام اور حماس کا ردعمل ہے، کیونکہ اگر غزہ میں بیرونی افواج داخل ہوئیں تو عوام اسے ایک اور "غیر ملکی تسلط” تصور کر سکتے ہیں، جس سے نئی مزاحمت جنم لے سکتی ہے۔ تیسرے اور سب سے پیچیدہ مسئلے کا تعلق اسرائیل کے رویے اور امریکہ کی دوہری پالیسی سے ہے۔ اسرائیل کی ضد اور ہٹ دھرمی کسی بھی امن منصوبے کو سبوتاژ کر سکتی ہے، جبکہ امریکہ ایک طرف امن کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کی غیر مشروط حمایت بھی جاری رکھتا ہے۔ یہی تضاد اس پورے عمل کو غیر یقینی اور غیر پائیدار بنا دیتا ہے۔
واشنگٹن کی یہ ملاقات بظاہر امید کی ایک کرن ہے لیکن اصل امتحان آنے والے مہینوں میں ہوگا۔ کیا واقعی مسلم دنیا غزہ میں فوجی اور مالی قربانی دینے پر تیار ہوگی؟ اور کیا فلسطینی عوام اس منصوبے کو قبول کریں گے یا اسے ایک اور “غیر ملکی تسلط” سمجھیں گے؟یہ سوالات ابھی کھلے ہیں، لیکن ایک بات طے ہے: ٹرمپ اور مسلم رہنماؤں کی یہ ملاقات مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر یاد رکھی جائے گی — چاہے نتیجہ مثبت نکلے یا منفی۔