8
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) چین اور امریکا کے تعلقات گزشتہ دو دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
2001 میں چین کے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کا رکن بننے کے بعد عالمی تجارت میں اس کا کردار تیزی سے بڑھا، جس نے امریکا سمیت مغربی دنیا کے لیے نئی مسابقت پیدا کی۔ ابتدائی سالوں میں دونوں ممالک نے بظاہر تعاون پر مبنی تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی، تاہم چین کی تیز رفتار ترقی، صنعتی صلاحیت میں اضافہ اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت نے واشنگٹن میں خدشات کو جنم دیا۔
یہی وجہ ہے کہ 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے شروع ہونے والی تجارتی جنگ نے عالمی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا۔ محصولات (tariffs)، کوانٹیٹیو پابندیوں اور ٹیکنالوجیکل بلیک لسٹنگ کے ذریعے امریکا نے چین پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی، جبکہ چین نے بھی جوابی اقدامات کے ذریعے اپنا موقف مضبوط رکھنے کی کوشش کی۔
حالیہ مذاکرات کی نوعیت
گزشتہ چار ماہ میں یہ چوتھا موقع ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست تجارتی مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ اس بار مذاکرات کا مرکز اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ بنا، جہاں ابتدائی مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔امریکی حکام نے چین کو خبردار کیا کہ اگر اس نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی تو مزید ٹیرف عائد کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ امریکا اپنے تجارتی تنازعات میں صرف اقتصادی پہلو پر نہیں بلکہ جغرافیائی سیاست (Geopolitics) کو بھی شامل کر رہا ہے۔ چین اور روس کے درمیان توانائی کے شعبے میں بڑھتے تعلقات واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، مذاکرات میں چینی سوشل ایپس کے حوالے سے بھی ڈیڈ لائن کا ذکر کیا گیا ہے۔ امریکا کے لیے یہ مسئلہ صرف ڈیٹا سیکیورٹی یا پرائیویسی تک محدود نہیں بلکہ ٹیکنالوجیکل برتری کی جنگ کا حصہ ہے۔
تجارتی جنگ کے وسیع تر مضمرات
چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ محض محصولات اور جوابی کارروائیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔
1 اقتصادی بالادستی کی جدوجہد
امریکا روایتی طور پر عالمی معیشت میں سب سے بڑا کھلاڑی رہا ہے، لیکن چین کی ابھرتی ہوئی معیشت نے اس توازن کو چیلنج کر دیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق، اگلے چند سالوں میں چین کا جی ڈی پی امریکا کے قریب تر پہنچ سکتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس نے تجارتی تعلقات کو ایک اسٹریٹجک مقابلے میں بدل دیا ہے۔
2. ٹیکنالوجی میں برتری
مصنوعی ذہانت (AI)، 5G نیٹ ورکس، سیمی کنڈکٹرز اور بائیوٹیکنالوجی جیسے شعبے مستقبل کی طاقت کے تعین میں اہم کردار ادا کریں گے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ چین ان شعبوں میں برتری حاصل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے ہواوے اور دیگر چینی کمپنیوں پر سخت پابندیاں لگائی ہیں۔
3. جغرافیائی سیاسی اثرات
امریکا اپنے یورپی اتحادیوں کو بھی اس جنگ میں شریک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میڈرڈ میں مذاکرات کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ یورپ کو قائل کیا جائے کہ وہ چین کے خلاف زیادہ سخت مؤقف اپنائے۔
دنیا کی معیشت پر اثرات
تجارتی جنگ کے باعث عالمی سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
یورپ:
یورپی معیشت دونوں فریقین کے درمیان کشمکش کی زد میں ہے۔ ایک طرف اسے امریکی دباؤ کا سامنا ہے، دوسری طرف چین اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بنتا جا رہا ہے۔
ترقی پذیر ممالک:
ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک کے لیے یہ صورتحال پیچیدہ ہے۔ وہ سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے چین پر انحصار کرتے ہیں، لیکن مالیاتی اور اسٹریٹجک تعلقات میں امریکا کا دباؤ بھی جھٹلا نہیں سکتے۔
توانائی کی مارکیٹ:
روسی تیل کی خریداری پر امریکی اعتراض نے عالمی توانائی کی منڈی کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگر چین پر سخت پابندیاں لگتی ہیں تو تیل کی قیمتوں میں بڑا اتار چڑھاؤ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
مذاکرات کا مقصد اور چیلنجز
ان مذاکرات کا بنیادی مقصد بظاہر **تنازعات کو کم کرنا** اور **تجارتی تعلقات کو بہتر بنانا** ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فریقین کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج بہت گہری ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ چین روس سے فاصلے پر رہے اور اپنی ٹیکنالوجیکل پالیسیوں میں شفافیت دکھائے۔ چین یہ سمجھتا ہے کہ امریکا اس کی ترقی کو روکنے کے لیے غیر منصفانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر مذاکرات کے بعد وقتی طور پر کشیدگی میں کمی آتی ہے لیکن بنیادی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔
مستقبل کے امکانات
اگرچہ میڈرڈ مذاکرات کو مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے، مگر تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صرف ایک عارضی وقفہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آیا دونوں طاقتیں ایک جامع معاہدے تک پہنچ پائیں گی یا یہ کشمکش آنے والے برسوں میں مزید شدت اختیار کرے گی۔ اگر امریکا نے مزید ٹیرف عائد کیے تو چینی معیشت دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکی صارفین کو بھی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر چین نے اپنی ٹیکنالوجی پر پابندیوں کو توڑنے کے لیے خود انحصاری کی راہ مزید تیز کی تو وہ مستقبل میں زیادہ خودمختار معیشت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر یہ کشمکش حل نہ ہوئی تو سپلائی چین میں مزید رکاوٹیں، سرمایہ کاری میں کمی اور جغرافیائی سیاست میں تناؤ بڑھے گا۔