تحریر، گلبازمشتاق ایڈووکیٹ
اسی کی دہائی میں جہاد کا فرمان جاری ہوا تو مرد مومن کی مملکت خداداد میں ادب اور فنون لطیفہ کے لیے زمین تنگ ہو گئی۔ ملک کی ثقافت، کلچر، قانون اور تاریخ کو دوبارہ سے مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہوا۔ ایسے میں سیالکوٹ والے وحید مراد کی چاکلیٹ ہیرو لک کے ساتھ رومانوی فلمیں بنانا ممکن نہ رہا۔ موضوعات کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو گنڈاسے سے کٹی اڑتی گردنیں اور خون میں لت پت لاشوں کے علاوہ سنسر بورڈ کی قینچی ہر اس چیز پر تیزی سے چلی جس سے شعور پیدا ہونے کا ذرا سا بھی اندیشہ تھا۔
یوں مرد مومن کی نئی وضع کردہ ثقافت میں لوہری اور بھنگڑہ حرام ہو گئے، لیکن انجمن کے ٹھمکے اور سلطان راہی کی بڑھکیں حلال ٹھہریں۔سلطان راہی کی ”مولا جٹ“ 1979 میں ریلیز ہوئی۔ جس نے نہ صرف سینما کلچر کا رخ موڑ دیا بلکہ پنجاب کے عوامی کلچر پر بھی دور رس اثرات مرتب کیے ۔ افغان جہاد ملک میں ڈالر اور کلاشنکوف لایا تھا، ڈالر شہروں میں جذب ہو گئے اور کلاشنکوف دیہاتوں تک پہنچ گئی۔
ایسے میں پنجابی فلموں نے دشمنی، قتل اور تشدد کو اس رومانوی انداز میں پیش کیا کہ نوے کی دہائی میں پنجاب کے دیہات میں جوان ہوتا بچہ صرف ”بدمعاش یا اشتہاری“ بننا چاہتا تھا۔اور پھر پاپولر کلچر میں بدلے میں کیے جانے والے قتلوں کی کہانیاں تھیں اور ان سے جڑے کردار۔ اور جگہوں کا تو پتہ نہیں، لیکن ڈسکہ میں ہم ببو خان، پیجو ملہی، اپھو ٹن ٹن، مرادی ساہی، ٹیپو ٹرکاں والا، ٹونی بٹ اور ایسے کئی کرداروں کے قصے سن سن جوان ہوئے تھے۔ یہ سارے کردار ڈسکہ، گوجرانوالہ اور وسطی پنجاب کے تھے۔نویں جماعت میں ہمارا ہم جماعت ارشاد بھٹی تھا جو ”اشتہاریوں“ کا انسایئکلو پیڈیا تھا، جب وہ ہمیں بتاتا کہ (اس کی خود ساختہ) بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے ٹاپ ٹین اشتہاری ڈسکہ سے ہیں تو من میں ایک انجانا سا فخر محسوس اور دل میں عجیب سی خوشی ہوتی تھی۔
ڈسکہ کے مضافات ایک گاؤں ہے، مندراں والا۔ جیسے کیڈٹ کالج کے طلباء کے لیے فورسز میں جانا آسان ہوتا ہے، ان دنوں مندراں والا کے لڑکوں کے لئے بطور ”اشتہاری“ کیرئیر بنانا زیادہ آسان تھا، کیونکہ گاؤں میں سالہا سال سے دشمنی چلی آ رہی تھی اور آئے روز قتل ہوتے تھے۔ ایسے ماحول میں ابتدائی ٹریننگ تو گاؤں کا ماحول ہی مہیا کر دیتا تھا۔ مندراں والا میں جب کوئی قتل ہوتا تو ارشاد بھٹی واردات کا یوں رومانوی انداز میں نقشہ کھینچتا تھا کہ دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں اور بس ایک ہی خواہش ہوتی کہ جلدی جلدی دسویں پاس کر کے بدمعاشی شروع کی جائے۔
اب 30 بور رکھنا جوان ہوتے بچوں کے لیے بہت فخر والی بات تھی۔ استخار ساہی مندراں والا کا تھا اور عمر میں بھی ہم سے تھوڑا بڑا تھا، یہ بات اس کو دوسرے لڑکوں پر برتری دلاتی تھی لہذا اس نے دسویں میں ہی تھوڑی تھوڑی بدمعاشی شروع کردی اور کبھی کبھی بستے میں 30 بور پستول چھپا کر لے آتا پھر اسے ڈب میں دبا کر سکول میں گھوما کرتا تھا۔ ہر جماعت میں ”شکایتو چوہے“ تو ہوتے ہی ہیں، جلد ہی مخبری ہو گئی۔ تفریح کے بعد آخری گھینٹہ چل رہا تھا۔استاد محترم ملک عباس صاحب کمرہ جماعت میں داخل ہوئے اور سیدھا استخار کے سر پر جا کر کھڑے ہوئے۔ مخبر نے خبر پکی دی تھی۔ استاد محترم نے ہاتھ بڑھا کر استخار کی ڈب سے لگا 30 بور نکال لیا۔ اور اپنی کرسی پر جا بیٹھے، بلٹ میگزین علیحدہ کی اور استخار کو حاضر کیا اور ایسا زناٹے دار تھپڑ مارا کہ اس کی شوں شوں ہمیں اپنے کانوں میں محسوس ہوتی رہی۔
استاد محترم کلاس کی اسٹیبلشمنٹ تھے اور استخار اس دن کا شہباز گل۔ ہم نے فوراً بدمعاشی کا کیرئیر کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا۔ ویسے بھی یہ وہ زمانہ تھا جب استاد کا رعب سانس کھینچ لیتا تھا۔ سٹی کالج آف سائنس اینڈ کامرس، ملتان جیسے بدبخت طلباء پیدا ہونے میں ابھی دو دہائیاں باقی تھیں۔نوے کی دہائی میں دشمنی کے اس رومانس نے پنجاب کے کئی دیہات اجاڑے۔ پھر ڈنکی لگا کر یورپ جانے کا رواج چل پڑا اور دیہات نوجوانوں سے خالی ہو گئے تو یہ سلسلہ کچھ کم ہوا ہے۔ اب فارن ریمٹنس سے دیہاتوں کی اکانومی چلتی ہے تو سفید لٹھا اور ڈب میں پستول کا فیشن بھی کم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ اب امپورٹڈ کپڑوں اور نئے ماڈل کے موبائل فونز نے لے لی ہے۔لہندے پنجاب میں جب امریکہ سے جاری ہونے والے جہاد کے فرمان نے ات مچائی ہوئی تھی تو چڑھدے پنجاب میں موگا کے جرنیل سنگھ برار نے خالصتان کا علم بلند کیا ہوا تھا۔ اتنے میں چوراسی ہو گئی۔ جوان ”لا پتہ“ ہونے لگے تو بوڑھوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ ان کو برطانیہ اور کینیڈا بھگا دیا جائے۔ ویسے تو پہلا پنجابی 1903 میں معاش کی تلاش میں کینیڈا پہنچا تھا۔ لیکن اندرا گاندھی کے ”بلیو سٹار“ نے ہجرت کو ایک نئے معانی دے دیے۔ سنتالیس سے لے کر چوراسی تک پنجابی ہجرت سے آشنا ہو چکے تھے۔
پنجابی پنجاب سے نکل جاتا ہے، لیکن پنجاب پنجابی سے نہیں نکلتا۔ لہذا مہاجرین نے ٹورنٹو میں منی پنجاب اور لندن میں ساؤتھ ہال بسا لیا۔ کاغذ پکے کرنے اور نوکری کی فکر سے جب زندگی آزاد ہوئی تو ڈھول کی تھاپ، تنمبی کی ٹن ٹن اور ٹپے ماہیوں کی یاد ستانے لگی۔ نئی صدی کا جنم ہوا تو بیگانے دیس میں ہپ ہاپ موسیقی سے پنجابی گیت کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اب کینیڈا اور برطانیہ سے چڑھدے پنجاب میں صرف ڈالر اور پاؤنڈ ریمٹ نہیں ہوتے تھے بلکہ پنجابی موسیقی بھی امپورٹ ہونے لگی۔ مٹیاروں کے نین نشیلے تھے اور ان پر گیت بھی بنے لیکن جب سے گرودوارہ گولڈن ٹیمپل کے صحن کو میجر جنرل کلدیپ سنگھ برار کے بوٹوں نے روندھا تھا اور گرنتھ صاحب کے صفحے اور گرنتھیوں کے سینے گولیوں نے چھلنی کیے تھے تب سے پنجابی جوانوں کے اندر کہیں ایک باغی رہنے لگا۔
ایسے میں لدھیانہ کے چماروں کا لڑکا امر سنگھ چمکیلا گھر سے چھپ چھپا کر پنجاب کی آواز بن چکا تھا۔ پنجابی ویسے تو للکارے مارنے میں مشہور ہی ہیں لیکن چمکیلے نے ”پہلے للکارے نال“ فخریہ گیتوں کی ایک نئی روایت ڈالی۔ نئی صدی شروع ہوئی تو فخریہ گیتوں کی یہ روایت جیزی بی، ہنی سنگھ اور من کریت سنگھ سے ہوتے ہوتے موسے والے کے سدھو تک آن پہنچی جس نے اس کو نئی معراج تک پہنچا دیا۔ ہنی سنگھ تک کہانی ایک زوال کا شکار تھی کہ بڑی گاڑی کا فخریہ ذکر صرف دوشیزہ کو متاثر کرنے کے لئے تھا لیکن موسے والے نے فخریہ گیتوں میں مزاحمت کی بنیاد ڈالی۔ بندوق اور دشمنی کا ذکر لیکن ایسا رومانس اختیار کر گیا ہے کہ لہندا اور چڑھدا پنجاب تو کجا پختونخوا کے پنجابی سے نابلد نوجوان بھی اس کے سحر سے نہیں بچ سکے۔ اس نئی لہر کی کہانی کی اگلی قسط کیسی ہو گی وہ ”بدمعاشی“ کی ویڈیوز سے اٹی ٹک ٹاک کو پانچ منٹ سکرول کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ناقد لیکن یہ نقطہ اٹھاتا ہے کہ لڑائیوں اور پھڈوں کی مداح و ستائش کرنے کی روایت پنجاب میں کوئی نئی نہیں۔
صدیوں پہلے جب ابھی لائل پور کی لکیریں بھی نہیں کھینچی گئی تھیں، یہاں کے جانگلیوں نے مغل بادشاہ کے ساتھ اپنے پھڈے کی شان میں ”وار“ اور ”لوہری“ ترتیب دیں تھیں۔ اس کی کہانی پھر سہی، ابھی کے لیے بس اتنا ہے کہ امر سنگھ چمکیلا کو مارچ 1988 کو نامعلوم گولیوں نے چھلنی کر دیا تھا۔ سلطان راہی 1996 میں گوجرانوالہ کے چھیٹکے سے ڈکیتوں کے ہاتھوں مارا گیا جن کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ڈکیتی کی مزاحمت میں مارے جانے والا پنجاب کا ”مولاجٹ“ ہے۔ اور سدھو موسے والے کو کینیڈا کے گولڈی برار کے لڑکوں نے اسی سال 29 / 5 کو گولیوں سے بھون دیا تھا۔رہ گئی بات استخار ساہی کی تو اس کو اوائل بدمعاشی میں ہی کلاشنکوف کے کسی کیس میں قید بول گئی تھی۔ پھر جب رہا ہوا تو ڈنکی لگا کر یورپ چلا گیا۔