تحریر۔عابد علی
جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ کیے رکھا۔ 14 ستمبر کو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجوں نے دہلی پر قبضہ کر کے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا بعد میں ایک خودساختہ عدالت کے ذریعے بہادرشاہ ظفر کو جنگ و جدل کا ذمہ دار قرار دیا گیا(خود ہی جج، خود ہی مدعی، خود ہی گواہ)۔ بادشاہ کے دو ملازمین ماکھن چند اور بسنت خواجہ سرا کو گواہ بنایاگیا۔ ان گواہوں کے بیانات کی بادشاہ نے سختی سے تردید کی۔ مگر اسے مجرم قرار دے کر سزا کے طور پر جلا وطن کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔ مارچ 1858ء میں لکھنؤ پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ یہاں بھی ظلم وستم کا خوف ناک باب دہرایا گیا۔ دہلی، لکھنؤ، کانپور، جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آ گئے۔ جنگ آزادی کا نعرہ ’’انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دو‘‘ تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جنھیں انگریز سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے ناآشنا تھے۔ ان میں مفاد پرست فتنہ پرداز لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے مذہب کے نام پر تفرقہ ڈالا۔ دکان داروں کو لوٹا گیا کسی گھر یا محلہ کو لوٹنے کے لیے یہ افواہ کافی تھی کہ یہاں گورا(انگریز) چھپاہوا ہے۔
بہادر شاہ ظفر جس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کر دیا تھا۔ اور پھر بادشاہ نے اعلان کیا :ہاں میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں اور آپ لوگ ہندوستانی فوج کے سپاہی، آج میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کرتا ہوں، آج کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو کوئی خراج کی رقم نہیں دے گا اور ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ یہ فرنگی ہماری مملکت ہند سے نکل جائیں، سپاہیوں کے نام لکھ کر تنخواہیں مقرر کر دی گئیں، مغل خزانہ ویسے تو خالی تھا مگر وطن کی محبت میں ملے ہوئے مہارانہ پرتاب، بادشاہ اکبر اور شیوا جی کی اولادوں کو ایک ہونے پر مجبور کر دیا، بہادر شاہ کو جنگ آزادی کا سربراہ مقرر کیا گیا اور رقم بادشاہ کے نظر کی جس سے سپاہیوں کو تنخواہیں دی جانے لگیں۔ فوج تو مل گئی مگر اچھا سپہ سالار نا مل سکا۔ چونکہ یہ جنگ مقررہ وقت سے پہلے شروع ہو گئی تھی اس لیے جھانسی کی رانی، تانتیا توپی، بہادر شاہ ظفر میں سے کوئی بھی تیار نا تھا اور غداروں کی بھی کوئی کمی نا تھی جھانسی کی رانی کو شکست ہو گئی اس کے بعد وہ مر گئی۔ تانتیا توپی لاپتہ ہو گئے سارا بوجھ اک لاغر بادشاہ کے سر پر آن پڑا، چنانچہ جنگ میں مرزا ابوبکر کو سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا جو بہت اچھا لڑ رہا تھا مگر غداروں نے اس کو شراب پلا دی جس کی وجہ سے جنگ میں مغل سلطنت کی فوج ہار گئی، اس کے بعد ایک نیا سپہ سالار بہادر شاہ کے پاس آیا اور کہا آگے سے جنگ میں شروع کرتا ہوں اس نے بہادر شاہ کو دہلی چھوڑنے کی درخواست کی اور کہا کے دوبارہ حملہ کر کے دہلی فتح کر لیں گے مگر تقدیر سمجھیں یا مغل بادشاہ کا شہر دہلی سے لگاؤ بادشاہ نے جانے سے انکار کر دیا اور مقبرہ ہمایوں میں پناہ لی بعد ازاں بادشاہ کے قریبی غدار حکیم احسن اللہ نے انگریزوں کو بادشاہ کا پتہ بتا دیا جس سے بادشاہ کو گرفتار کر لیا کیا یوں مغل سلطنت کا سورج غروب ہو گیا
قارئین، بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا کمزور بادشاہ تھا کیونکہ وہ اپنی سلطنت کی کمزوریاں، اپنے وزرا کی چالاکیاں نہ بھانپ سکا، وہ یہ نہ بھانپ سکا کہ اُسے کیسے ایک دم نیچے گرا دیا جائیگا اُسکو آسائشیں حاصل تھی رعایا کی اُسکی فکر نہ تھی اسی لئے جب انگریز فوج اس پر حملہ آور رہی تو وہ شباب و کباب کی محفلیں سجاتا رہا اور نتیجتا سلطنت ختم ہو گئی۔ اس وقت ہماری ریاست کے اوپر بھی ایک کمزور حکمران بیٹھا ہے جسکی صوبوں پر حکومت نہیں، وفاقی اٹھارویں ترمیم کے بعد آگے ہی اپاہج ہے یوں کہہ لیں کہ اپاہج حکومت ہے وہ بھی ریاستی اداروں کی بیساکھیوں پر چلنے والی حکومت۔ اگر ریاستی ادارے ہٹ جائیں تو یہ اپاہج حکومت دھڑام کر کے گر جائے۔ بہادر شاہ ظفر نے خطرے کو نہ بھانپا اور نتیجاتا سلطنت اور اپنا خاندان گنوا بیٹھا۔ یہی صورتحال اس اپاہج حکومت کی ہے، جو خطرے کو بھانپ نہیں رہی، کہ خطرہ اب خطرہ نہیں ناقابل تلافی نقصان بن چُکا ہے اور اسکے اثرات اتنے بُرے ہونگے کہ جو ابھی تک یہ حکومت سوچ نہیں پا رہی، ابھی بھی یہ ایک دوسرے پر عدم اعتماد لانے کی تیاریوں میں ہیں۔ صوبوں میں پانی کو جان بوجھ کر پھیلایا جا رہا ہے کہ امداد ملے، دُنیا میں بتایاگیا کہ پاکستان کا تہائی فیصد حصہ ڈوب گیا لیکن سیٹلائیٹ تصاویر کچھ اور بتا رہی ہیں، عالمی ادارہ ریلیف انٹرنیشنل ملک کا ۱۱ فیصد حصہ بتاتا رہا کہ سیلاب میں ڈوبا ہے۔ سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہوا عالمی ادارہ ایسی موڈ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ پاکستان کا صوب سندھ ۱۸ فیصد متاثر ہوا۔ دوسرا بیساکھیوں والی حکومت پر کسی نے اعتبار نہیں کیا۔ حکومت کو ابھی تک صرف ۳۵ لاکھ ڈالر امداد ملی ہے جب کہ نقصان اربوں ڈالر کا ہو چکا ہے۔ نیشنل فلڈ رسپانس سینٹر کے مطابق ۳۳ ملین متاثر افراد میں سے ۱۶ ملین تو صرف بچے ہیں جو کہیں احتجاج نہیں کر سکتے، نہ انکے لئے کوئی احتجاج کریگا نہ وہ کسی سے امداد مانگینگے۔ یہ تو وہ قصہ ہے جو جاری ہے ابھی سردیاں بھی پہنچ گئیں اور سُنیئے۔
سردیاں سر پر پہنچ گئیں، سندھ بلوچستان میں لوگوں کو گھر نہ ملے تو وہاں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرینگے اور شہروں پر بوجھ ڈالینگے کیونکہ ہمارا شہری نظام بھی اتنا مضبوط نہیں کہ پراپر پلاننگ کی گئی ہو جس سے ہر فرد کو روزگار کے مواقع اور خوراک میسر ہو سکے۔ ایسے میں اگر سندھ و بلوچستان سے نقل مکانی ہوتی ہے تو شہروں میں جرائم کی شرح آسمانوں کو چھوئے گی جبکہ سب سے بڑھ کر جو چیز اس وقت آگے آنے والی ہے اور ہمارے حکمران بہادر شاہ ظفر کی طرح عیاشیوں میں مصروف ہیں مختلف ممالک کے دوروں میں پیسے اُڑائےجا رہے ہیں صرف سیلاب زدگان کے نام پر، انکی اپنے ملک کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں کوئی ریسرچ نہیں کہ ہونیوالا کیاہے۔ میں زلزلہ پیما مرکز کے ڈائریکٹر محمد زاہد کیساتھ بیٹھا تھا اور زلزلے کے حوالے سے بات چل رہی تھی انہوں نے بتایا کہ جتنا سیلاب کا پانی ہوگا وہ زمین کے نیچے جذب ہو جائیگا، اب مختلف علاقوں کی ٹاپوگرافی مختلف ہے، جیوگرافی مختلف ہے، میدانی علاقوں میں بڑے بڑے میدان ہیں اسی وجہ سے انکے نیچے ٹیکٹک پلیٹس بڑی ہیں کیونکہ پہاڑ نہیں ہیں ایسے میں جو میدانی علاقے ہیں وہاں تو پانی زیر زمین جذب ہو جائیگا اور پانی کا پریشر اتنا فرق نہیں ڈالیگا لیکن جو پہاڑی علاقے ہیں جیسے گلگت بلتستان ہے۔ اس علاقے کی ٹاپوگرافی بالکل مختلف ہے۔ یہاں پر دو پہاڑوں کے درمیان جو وادی ہے اسکے ٹکڑے کی الگ پلیٹ بنی ہے یا کہہ لیں کہ ایک الگ کرہ ہے۔ اسی طرح پہاڑوں میں سینکڑوں ہزاروں کرے ہیں۔ اب ان علاقوں میں جس حساب سے گلشئیرز پگھلے ہیں، پانی مختلف ذرائع سے زمین کے نیچے گیا ہے ابھی تو وہ مختلف حصوں میں پہنچ چُکا ہے لیکن جیسے ہی یہاں پر موسم سرد ہو گا۔ ان قطعات میں موجود پانی نقطعہ انجماد میں جمے گا جس سے مائع ٹھوس کی شکل اختیار کریگا اور ان علاقوں میں زمین کی پلیٹوں میں جنبش بڑھ جائیگا اور ان علاقوں میں جنبش کا بڑھنا ایسے ہی ہے جیسے میدانی علاقوں میں زلزلہ آنا۔ صرف تین سے چار شدت کا زلزلہ بڑی بڑی وادیاں تباہ کر دیگا۔ پہاڑ ہلینگے، لینڈ سلائیڈنگ ہوگی، اگر پہاڑوں پر برف ہے تو وہ برف ایولانچی کی شکل میں نیچے آئیگی، دریاوں کے راستے میں رکاوٹین لگینگی اور دریا اپنا راستہ بدلینگے، اور مزید تباہی ہو گی۔ اس دور کا بہادر شاہ ظفر ابھی تک شعروشاعری میں مشغول ہے، وزرا دوروں میں مصروف ہیں۔ کوئی ریسرچ ورک نہیں ہو رہا، کوئی پلاننگ نہیں ہو رہی، اور عوام مر رہی ہے اور اب جو دور شروع ہو چکا ہے ایسی اقوام صفحہ ہستی سے مٹ جائینگی جو ریسرچ نہیں کرینگی، منصوبہ سازی نہیں کرینگی اور قوم سے غداری نہیں کرینگی لیکن اپاہج حکومت میں ایسی کوئی صفت نظر نہیں آ رہی۔