14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے میں ایک نیا ملک جسکا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا شامل ہوا۔اس ملک کیلئے بے تحاشا قربانیاں دی گئیں قافلوں کے قافلوں نے اپنی جانیں پیش کی کئی شیر خوار بچے اس ملک کی آزادی کی بھینٹ چڑھ گئے کئی لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی کچھ تو بیچاری پاگل ہو کر اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر فوت ہو گئیں کئی خواتین کے سہاگ اجڑ گئے اپنی آنکھوں میں یہ خواب سجائے کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جا کر وہ سب کچھ حاصل کر سکیں گے جو انہیں ہندوستان میں میسر نہ تھا
۔جب وہ لوگ ہجرت کر کے ادھر آئے تو انکے خواب چکنا چور تب ہوئے جب اس ملک میں پاور گیم کیلئے ہمارے نہایت اہم ادارے جسکو ہم پاک فوج کے نام سے جانتے ہیں اس نے اس ملک کی آزادی کیلئے اپنے دن رات ایک کرنے والے قائد کو نہایت سفاکی سے وہاں قتل کیا جسکا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا قائد اعظم ٹی بی کی بیماری میں مبتلا اپنے آخری ایام زیارت میں گزار رہے تھے اچانک انکی طبیعت بگڑنے پر جب انکو ہسپتال لیکر جا رہے تھے تو انکی ایمبولینس کا پیٹرول ختم کا بہانہ بنا کر اس ملک کے خیر خواہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مقصد صرف پاور گیم تھی۔اس تمام کاروائی کے پیچھے کار فرما ہاتھ کے بارے میں کسی کو سوال اٹھانے کی جرات نہ ہوئی اور یوں ہمارے ڈھول سپاہیوں کے جذبے اور جواں ہو گئے انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو لیاقت باغ میں ایک افغان شہری سید اکبر سے گولی مروا کر جمہوریت کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک کے منہ پر کالک تھوپ دی مقصد صرف ایک ہی کہ اس اسلامی جمہوریہ میں تمام ہولڈ کنٹرول انہی کے ہاتھوں میں رہے لیاقت علی خان کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد آنے افواج پاکستان نے اپنی نرسری کا آغاز کیا جس میں بکائو سیاستدانوں کی پرورش شروع ہوئی اور اس ملک کے قیام کے 11 سال بعد اسٹیبلشمنٹ نے کھل کر کھیلنا شروع کیا اور 1958 میں مارشل لاء کا نفاذ کر کے تمام باگ ڈور سنبھال لی یہ اس جمہوری ملک کے عوام کے منہ پر طمانچہ تھا جو اپنی جانیں عزتیں خاندان گنوا کر اس ملک میں ادھورے خواب پورے کرنے آئے تھے۔اسکے بعد اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش پانے والے سیاستدان مہرے کے طور پر استعمال ہوئے اور اپنی مقررہ مدت تک اسٹیبلشمنٹ کی ڈگڈگی پر ناچے اور گھروں کو بھیجے گئے اسکے پیچھے بھی طاقت کا اصل سرچشمہ برقرار رکھنے کیلئے عمل کار فرما تھا۔اسکے بعد 1969 میں اس اسلامی جمہوریہ نے دوسرا مارشل لاء دیکھا اور یہاں ہجرت کرنے والوں کے ارمانوں پر اوس پڑتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ نے اس دوران اس ملک کو گدھوں کی طرح نوچا۔1977 میں اس ملک نے ایک بار پھر اپنی عزت کو ایک اور ڈکٹیٹر کے ہاتھوں لٹتے دیکھا یہ لٹیرے اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کوئی بھی انکے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کر پایا اور نہ ہی ابھی کوئی اپنی آواز بلند کر پاتا ہے۔جوں جوں وقت گزرتا گیا ان لٹیروں کے طریقہ واردات میں جدت آتی گئی پھر انہوں نے اپنے لوگوں کو دوسرے ممالک کو بیچ کر مال بٹورنا شروع کیا گیا اس مملکت خداداد نے اس ڈکٹیٹر کو بھی دیکھا جو مکے لہرا لہرا کر انتہائی مکاری سے لوگوں کو بیچتا چلا گیا اور مال بٹورتا رہا مشرف وہ ڈکٹیٹر تھا جسکے دور میں پاکستان کی ہوائی حدود کو چند پیسوں کے عوض بیچنے پر اپنی ہی فوج میں لڑائی ڈالی گئی جسکے نتیجے میں ایئر فورس کے چیف کے جہاز کو نشانہ بنایا گیا اور قتل کر دیا گیا اسکے پیچھے بھی ایک ہی عمل کار فرما تھا کہ یہ طاقت کا نشہ اترنے نہ پائے اور اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں ہر رنگ،نسل،کرتوت کا پودا پروان چڑھ چکا تھا اور پھل دینے کیلئے تیار تھا۔مشرف تو اپنا دور پورا کر کے گلی کے ٹچے بدمعاش کی طرح اس زمین کے اوپر پھرتا رہا جسکو اس ڈکٹیٹر نے اپنی حوس کا نشانہ بنایا تھا۔اور عوام شروع دن سے لیکر آج تک کبھی نواز،زرداری کے نرغے میں اپنے خوابوں کا خون ہوتے ہوئے دیکھتی رہی اس دوران عوام کے حالات میں تو بہتری نہ آ سکی ہاں ڈکٹیٹروں اور طاقت کے اصل سرچشموں نے اپنے پیٹ خوب بھرے اور پھر ایک نئے بوڑھے درخت جسکا نام عمران خان ہے کو لاکر بو دیا گیا اور اسکی چھائوں میں بیٹھ کر رہی سہی کسریں نکالی گئیں۔عوام آج بھی ان لٹیروں سے امیدیں لگائی بیٹھی ہے کہ کبھی تو انکے پیٹ بھریں گے اور یہ عوام کے درد کو سمجھیں گے۔ان تمام حالات میں ہاکی کی وہ کمنٹری بہت یاد آتی ہے جب کمنٹریٹر کہتا تھا گیند سمیع اللہ کے پاس انہوں نے گیند کلیم اللہ کی جانب بڑھائی کلیم اللہ تیزی سے گیند کو لیکر آگے بڑھے اور گیند شہباز سینیئر کو پاس کر دی تو اصل میں اس مملکت خداداد میں گیند ہم عوام ہیں جو کبھی سیاستدانوں کبھی ججوں کبھی ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں ادھر زے ادھر لڑھک رہے ہیں۔