اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پنجاب اور کے پی کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف نے کیس میں فریق بننے کے لیے الگ الگ درخواستیں دائر کیں۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے۔
جسٹس جمال نے کہا کہ فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 جج بنچ پر بیٹھیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پہلے فیصلہ کریں کہ یہ 4/3 کا فیصلہ تھا یا 3/2 کا فیصلہ، پوری قوم کنفیوژن میں ہے۔
عدالت کا حکم آج تک جاری نہیں ہوا تو صدر نے تاریخ کیسے دی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں مسترد کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججوں کا ہے۔ چیف جسٹس نے آج تک عدالت کا حکم جاری نہیں کیا۔ جب عدالت کا حکم نہیں تھا تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟
فیصلہ 3/2 کاتھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، الیکشن کمیشن کی سمجھ کے مطابق فیصلہ 3/2 تھا۔ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے رجوع کیا۔ اپریل کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے کمیشن نے تاریخ طے کرنے کے بعد شیڈول جاری کر دیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کر دیں، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن 90 روز میں کرانا ہے، عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ 3/2 تک ہے، 3/2 کی طرف سے فیصلہ. پانچ ججوں کے دستخط شدہ، کمیشن نے پیراگراف 14 اور فیصلے کی ابتدائی سطریں پڑھیں، ممکن ہے کہ ہمیں غلط فہمی ہوئی ہو۔
جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں،بحران سے نمٹنے کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں، سپریم کورٹ
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ مختصر حکم میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے۔ لیکن کسی بھی قانون میں اقلیت۔ اکثریت ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی، پانچ ججز نے کھلی عدالت میں کیس کی سماعت کی اور فیصلے پر دستخط کر دیئے۔
کیا جسٹس یحیی اور جسٹس اطہر کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھا گیا ہے، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحیی آفریدی اور اطہر من اللہ ہمارے فیصلے سے متفق ہیں، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کیا ہوا میں تحلیل ہوگئے۔
الیکشن التواء کیس، حکومت اور پی ٹی آئی یقین دہانی کرائیں انتخابات شفاف اور پرامن ہونگے ، سپریم کورٹ
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن سے متعلق حکم نامہ 22 مارچ کی شام کو جاری کیا گیا، ۔ وزارت خزانہ نے کہا کہ وہ رواں مالی سال میں انتخابات کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتی۔ .
جسٹس منیب نے کہا کہ کیا آپ نے فروری میں سوچا تھا کہ الیکشن اکتوبر میں کرائے جائیں، اگر الیکشن اکتوبر میں ہونا تھا تو آپ نے صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی؟
بڑی عدالت ، بڑا فیصلہ، سپریم کورٹ نے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا،دو ججز کا اختلاف
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن تو ویسے بھی 2023 میں ہونے تھے، کیا بجٹ میں 2023 کے الیکشن کا کوئی بجٹ نہیں تھا؟
انتخابات کا بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھا جانا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انتخابات کا بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، معلوم نہیں اسمبلی قبل از وقت تحلیل ہو گئی، ملک بھر میں ایک بار الیکشن ہو جائیں تو 47 ارب روپے خرچ ہوں گے، اگر الیکشن الگ سے ہوں گے، 20 ارب روپے خرچ ہوں گے اضافی لاگت آئے گی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے کہا کہ کے پی کے میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں، خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق ان خطرات پر قابو پانے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے
صدر پاکستان کو نہ بتانے پر ہم نے غلطی کی ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو معلومات دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ یہ چیزیں صدر مملکت کے علم میں لائے، اگر آپ نے صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ سے غلطی ہوئی، صدر مملکت الیکشن کمیشن کے مشورے پر تاریخ دی گئی۔ خفیہ رپورٹس میں کہا گیا کہ علاقوں کو خالی کرنے میں چھ ماہ لگیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں بیس سال سے دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں تین بار الیکشن ہوئے، جب فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، 58/ 2 بی کے ہوتے۔ ہر تین سال بعد اسمبلی تحلیل ہو جاتی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ادارے آپ کو سپورٹ دیں تو کیا آپ الیکشن کرائیں گے، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا کیس لائنز پر ہے، الیکشن کمیشن کا معاملہ فنڈز کی دستیابی کا ہے۔
پنجاب میں الیکشن کرانے کو تیار ہیں۔
وکیل سوجیل سواتی نے جواب دیا کہ فنڈز اور اداروں سے تعاون ملے تو پنجاب میں الیکشن کرانے کو تیار ہیں۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، الیکشن کرانا کمیشن کی ذمہ داری ہے، کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے، اچانک فیصلہ بدل دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا کیس آرٹیکل 218 کے تحت ہے۔ الیکشن کمیشن نے فیصلہ لینے سے پہلے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط کہاں ہیں؟ صبح پوچھ رہا ہوں، کوئی عدالتی حکم سامنے نہیں آ رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس ضلع میں مسئلہ زیادہ ہے وہاں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔ پہلے سے طے شدہ، 8 اکتوبر کو ایسا کیا جادو ہو گا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، 8 اکتوبر کو 8 ستمبر یا 8 اگست کو کیوں نہیں بدلا جا سکتا؟
وکیل ای سی پی نے کہا کہ 8 اکتوبر 6 ماہ مکمل ہونے کے بعد پہلا اتوار بنتا ہے، عبوری جائزہ کے بعد 8 اکتوبر کی تاریخ دی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری نظرثانی کا مطلب ہے کہ انتخابات میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے، عدالت کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
وکیل سوجیل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبر کی تاریخ عارضی نہیں، اگر بعض علاقوں میں انتخابات ہوئے تو ایجنسیوں کے مطابق دہشت گردی کا مرکز ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے سے متعلق آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک پر امن الیکشن نہیں ہو سکتا، کسی جماعت نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔ .
چیئرمین پی ٹی آئی تحریری یقین دہانی کرائیں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کرانے کو تیار ہیں، چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے تحریری یقین دہانی کرائیں گے۔