اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)کئی مہینوں کی کشیدگی اور سیاسی کشمکش کے بعد بالآخر سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا تاہم بعد ازاں رہائی بھی مل گئی
عمران خان کو گرفتاری کے بعد احتساب عدالت میں جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا گیا،
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ نیب نے عدالت سے عمران خان کا 14 روزہ ریمانڈ طلب کیا تھا تاہم جج محمد بشیر نے صرف 8 روزہ ریمانڈ منظور کیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد نیب عدالت کے جج محمد بشیر زیر بحث ہیں اور وہ سرخیوں میں رہے ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ پاکستان کے چار وزرائے اعظم کا ان کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔
محمد بشیر گیارہ سال احتساب عدالت کے جج کے عہدے پر رہے۔
جسٹس محمد بشیر اسلام آباد کی تینوں نیب عدالتوں میں انتظامی جج ہیںاس کا مطلب ہے کہ نیب کا جو بھی کیس پاکستان کے دارالحکومت میں آئے گا، اس کی سماعت جج محمد بشیر کریں گے۔
ان کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ کیس سننا ہے یا نہیں سننا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو مقدمہ ان تینوں عدالتوں کے کسی دوسرے جج کو منتقل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی وزارت قانون کے قوانین کے مطابق نیب ججز کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے تاہم جج محمد بشیر کو اسلام آباد کی نیب کورٹ نمبر ایک میں تعینات کیا گیا ہے۔
جج محمد بشیر کو 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تعینات کیا تھا۔ جس کے بعد سال 2018 میں نواز شریف نے انہیں ایک بار پھر تین سال کے لیے اس عہدے پر تعینات کیا۔
ان کی دوسری مدت 2021 میں ختم ہوئی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے انہیں تین سال کے لیے دوبارہ جج کے طور پر تعینات کیا۔
نیب کے جج کیسے تعینات ہوتے ہیں؟
تقرری کے لیے جج کے نام کی تجویز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے وزارت قانون کو جاتی ہے۔ اس کے بعد وزارت قانون اس تجویز کو کابینہ کے سامنے رکھتی ہے۔
کابینہ کی منظوری کے بعد فائل صدر کے پاس جاتی ہے جہاں حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
سیشن جج محمد بشیر کا نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو چیف جسٹسز نے تجویز کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جج محمد بشیر کو پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے توسیع دی تھی اور انہیں توسیع دینے والے وزیراعظم بطور ملزم ان کے سامنے پیش ہوئے۔
چاروں وزرائے اعظم ان کے سامنے کیسے پیش ہوئے؟
جج محمد بشیر کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ 2012 سے اب تک چار وزرائے اعظم کو اپنی عدالت میں بطور ملزم پیش ہوتے دیکھ چکے ہیں۔
ان میں پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف اور اب تحریک انصاف کے عمران خان شامل ہیں۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو جیل بھیج دیاتھا
جج محمد بشیر کا کیرئیر بہت دلچسپ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ججوں کی تقرری عام طور پر صرف ایک مدت کے لیے ہوتی ہے لیکن محمد بشیر کو اس عہدے پر چار مرتبہ بیٹھنے کا موقع ملا بہت کم کیسز ایسے ہوتے ہیں جب کسی جج کو بار بار کسی عہدے پر تعینات کیا گیا ہوتاہم جج محمد بشیر گیارہ سال سے اس عہدے پر ہیں
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کو جج محمد بشیر کی عدالت سے اس وقت کافی ریلیف ملا جب وہ پانچ مقدمات میں بری ہو گئے۔
سال 2017 میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہ ہوئے تو محمد بشیر کی عدالت نے انہیں اشتہاری ملزم قرار دیا تھا۔
اسحاق ڈار سزا سے بچنے کے لیے بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جج محمد بشیر نے اپنے پہلے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اسحاق ڈار کو گرفتار کرنے سے روک دیا کیونکہ وہ پی ڈی ایم کے موجودہ رکن تھے۔ وہ حکومت میں وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے لیے پاکستان واپس آنے والے تھے۔
اسحاق ڈار نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اثاثہ جات کیس میں قانونی کارروائی کا سامنا کریں گے۔
عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں جج محمد بشیر کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا
جج محمد بشیر کسی بھی کارروائی کے دوران فریقین کو بہت تحمل سے سنتے ہیں، دلائل کو کافی وقت دیتے ہیں اور دلائل کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ تقریباً تمام مرکزی دھارے کی جماعتوں نے ان کے انصاف کا مزہ چکھا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پسندیدہ جج محمد بشیر اتنی پیچیدہ شخصیت ہیں کہ ان پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔