اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں جینیاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے سیاہ، سرخ اور پیلے رنگ کے چاول تیار کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ صرف رنگین چاول ہی نہیں بلکہ اس میں موجود غذائی اجزاء کی وجہ سے رنگ بدل گیا ہے۔
کرسپر ٹیکنالوجی کے چاول میں مائیکرو نیوٹرینٹس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالا چاول انڈونیشیائی کپورنگ چاول سے ملتا جلتا ہے۔ لیکن اس تحقیق کا بنیادی مقصد چاول کی مدد سے غذائیت کی کمی کو ختم کرنا ہے کیونکہ چاول کی ایک قسم میں تانبا اور سٹیل ہوتا ہے، دوسری قسم میں زنک اور مینگنیز ہوتا ہے اور تیسری قسم میں سیلینیم نامی اہم ٹریس عنصر پایا جاتا ہے۔
سائنسدانوں ماجدی محفوظ اور خالد صدیق کی سربراہی میں ایک بین الاقوامی ٹیم نے چاول میں مطلوبہ اجزاء شامل کرنے کی کامیابی سے کوشش کی ہے۔ یہ چاول تیزی سے اگتا ہے اور فصل جلد پک جاتی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے پوری دنیا میں کاشت کیے جانے والے چاولوں کا مطالعہ کیا ہے۔ماہرین نے تین کالے اور دو سرخ چاولوں کی اقسام لے کر ان کے پورے جینوم کا مطالعہ کیا۔ اس کے علاوہ چاول کی 46 دیگر اقسام پر بھی غور کیا گیا۔پھر ان میں سے سب سے زیادہ غذائیت والے چاول کا انتخاب کیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کالے چاول میں کاربوہائیڈریٹس، امینو ایسڈز، ثانوی میٹابولائٹس، لپڈز، پیپٹائڈس اور مختلف وٹامنز سمیت سب سے زیادہ غذائیت موجود تھی۔ پھر اسی کالے چاول میں کاپر، سٹیل، مینگنیج اور سیلینیم بھی پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ انسانی جسم کو ان دھاتوں کی بہت کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان کی کمی سنگین بیماریوں اور مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔