اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ فروری 2023 میں بہت سے آئینی کیس سپریم کورٹ کے سامنے آئے، عدالت کو آئینی معاملات میں الجھا کر امتحان لیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نئے جوڈیشل سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بطور چیف جسٹس نئے جوڈیشل سال کی تقریب سے آخری بار خطاب کر رہا ہوں، گزشتہ سال اس تقریب میں میں نے عدالت کی ایک سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالی تھی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک سال میں ریکارڈ 23 ہزار کیسز نمٹائے، اس سے قبل ایک سال میں سب سے زیادہ 18 ہزار کیسز نمٹائے جاتے تھے، زیر التوا کیسز کو 50 ہزار سے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیسز 2 ہزار تک کم ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی کیس آئے، آئینی مسائل میں الجھ کر عدالت کا امتحان لیا گیا، عدالت خود کئی بار کڑے امتحان اور ماحول کا شکار ہوئی۔ اس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہوئی، تمام واقعات آڈیو لیکس کیس میں اس کے فیصلے کا حصہ بنے۔
قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے باوجود سپریم کورٹ نے عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کا عمل جاری رکھا۔ یہ ایک قابل تحسین عمل ہے، بہت سے سیاسی مقدمات کی تعطیلات کے دوران سماعت بھی شیڈول تھی جس کی وجہ سے عام لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا عمل سست روی کا شکار رہا۔
ث نے کہا کہ جب سیاسی اور پارلیمانی نظام ناکام ہوتا ہے تو عدلیہ کو بھی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ رویہ ووٹ کے آئینی حق کے خلاف ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف آئین سے انحراف پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ .
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ کی آڑ میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، شہریوں کا فوجی ٹرائل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو عدلیہ اور ججوں کو قانونی برادری کبھی بھی قبول نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ نئے عدالتی سال میں سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔ امید ہے کہ نامزد چیف جسٹس آئین اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔