رپورٹ کے مطابق، شہباز شریف کو 18 ستمبر کو نواز شریف کی جارحانہ تقریر کے بعد پاکستان واپسی کے 48 گھنٹوں کے اندر لندن واپس جانا پڑا تھا
نواز شریف کے کڑے احتساب کے مطالبے نے پارٹی کے بہت سے رہنماؤں خصوصاً شہباز شریف کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اگر نواز شریف ایسے بیانات دیتے رہے تو انہیں طاقتور حلقوں کے ممکنہ ردعمل سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، عرفان صدیقی اور محمد زبیر سمیت کئی پارٹی رہنماؤں نے حال ہی میں اشارہ دیا تھا کہ پارٹی میں اب سابق آرمی چیف (ر) جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ (ر) فیض حمیدکے احتساب کا مطالبہ نہیں کریں گے اور اس کے بجائے پارٹی معاشی مسائل اور آج پاکستان کو درپیش دیگر چیلنجز پر توجہ مرکوز کرے گی۔
پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ جمعرات کو وطن واپسی پر شہباز شریف نے نواز شریف کی آمد سے قبل لاہور میں نواز شریف کے حلقے سمیت اپنے اور اپنے بیٹے حمزہ شہباز کے حلقے میں جلسے کی پارٹی کی تجویز کو منظور کر لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ریلیاں یکم اکتوبر سے شروع ہوں گی اور نواز شریف کی آمد سے قبل کارکنوں کو متحرک کرنے کی اہم ذمہ داری پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف کو سونپی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز اپنی کوششوں سےپارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے اور 21 اکتوبر کو مینار پاکستان پر نواز شریف کے استقبال کے انتظامات کی نگرانی پر مرکوز کر رہی ہیں جب کہ شہباز شریف قانونی معاملات پر توجہ دیں گے ۔
یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے 4 ہفتوں کے لیے ضمانت منظور ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نومبر 2019 میں علاج کے لیے لندن گئے تھے، طبی بنیادوں پر ضمانت ملنے سے قبل وہ العزیزیہ ملز کرپشن کیس میں لاہور میں تھےوہ کوٹ لکھپت جیل میں 7 سال قید کاٹ رہے تھے
مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ نواز شریف وطن واپسی سے قبل ضمانت کی درخواست دیں گے
79