ایران میں انسانی حقوق کے دو کارکنوں نے رائٹرز کو بتایا کہ بچی اس وقت ہسپتال میں تشویشناک حالت میں زیر علاج ہے اور خدشہ ہے کہ وہ مہسا امینی جیسی نہ بن جائے۔ایران کے اخلاقیات کی تربیت کے قوانین کو نافذ کرنے والی پولیس کے ترجمان نے انسانی حقوق کے گروپ کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ارمیتا گیرووند کے حجاب پر افسران کے ساتھ جھگڑے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ایران کے سرکاری میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکی ٹرین میں سوار ہوتے ہوئے بے ہوش ہو کر گر جاتی ہے اور اسے اس کے دوستوں نے ٹرین سے باہر نکالا اور ہسپتال لے گئے۔
VIDEO: 16-year-old Armita Garawand was reportedly assaulted by Iran's morality police. She remains in a coma. Last year, Iranian police killed Masha Amini in a similar incident, sparking nationwide protests. pic.twitter.com/OwC4Tn4FbJ
— Trey Yingst (@TreyYingst) October 3, 2023
دوسری جانب پولیس کے بیان پر ردعمل میں انسانی حقوق کی تنظیم نے اسپتال میں زیر علاج لڑکی کی تصویر شیئر کی ہے اور ایک سی سی ٹی وی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں خاتون پولیس اور ارمیتا گیرووند کو کسی بات پر لڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ارمیتا گیراوند کے رشتہ داروں نے بتایا کہ اسپتال میں سادہ کپڑوں میں ایجنسی کے اہلکار موجود ہیں، جس سے ہمیں خدشہ ہے، ہمیں پہلے ہی سوشل میڈیا پر بات چیت کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔یاد رہے کہ ایسے ہی ایک واقعے میں ماہسا امینی نامی 22 سالہ کرد لڑکی کو بھی تھانے میں صحیح طریقے سے حجاب نہ پہننے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد وہ کومے میں چلی گئی اور پھر اسپتال میں دم توڑ گئی۔اس واقعے کے بعد سے ایران سمیت دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور ایران کی اخلاقی پولیس کے دائرہ کار کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے اس پر نظر ثانی کا وعدہ بھی کیا تھا۔