سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ اور جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل پی ٹی آئی لیڈر عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل کی سماعت کی, جس میں عمر اسلم کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، مخالف پارٹی اور الیکشن کمیشن کے اہلکار عدالت میں پیش ہوئے.
جسٹس منصور نے پوچھا کہ عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی کیوں مسترد کیے گئے. کیا عمر اسلم ایک اشتہار ی ہے اس پر علی ظفر نے کہا کہ عمر اسلم حفاظتی تحفظ حاصل کرنے کے بعد ضمانت پر ہیں، ان کی ایک آئینی درخواست الیکشن لڑنے کے لیے مسترد کر دی گئی اور دوسری کو منظور کر لیا گیا.
جسٹس منصور نے سوال اٹھایا کہ کون سا قانون مفرور کو الیکشن لڑنے سے روکتا ہے اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ مفرور یا اشتہار ی قانون کی خلاف ورزی کا مجرم ہے اس لیے وہ الیکشن نہیں لڑ سکتا.
جسٹس منصور نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ایک بنیادی حق ہے، کسی شخص کو انتخابات کے بنیادی حق سے محروم کر کے سزا دی جا رہی ہے، انتخابات میں حصہ لینے سے کیسے روکا جا سکتا ہے پاکستان کے عوام کو منتخب نمائندوں کا فیصلہ کرنے دیں کہ آرٹیکل 17، 62 اور 63 کی کون سی شق کسی مفرور کو انتخابات کے بنیادی حق سے محروم کرتی ہے
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن یا عدالتیں کریں گی کہ اشتہاری کون ہے یا نہیں.
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان کے عوام یا امیدواروں کو جوابدہ ہے الیکشن کمیشن کو پاکستان کے عوام کو جواب دینا ہوگا.
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے عہدیداروں نے عدالت کو بتایا کہ بیلٹ پیپرز چھاپنے لگے ہیں اور اب ان میں تبدیلی ممکن نہیں ہوگی. جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر بیلٹ پیپرز چھپنا شروع ہو جائیں تو کیا امیدواروں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے ؟
97