اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)ایک تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 9 اور 10A شہریوں کو زندگی کا حق اور منصفانہ ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں. زندگی کے حق، منصفانہ ٹرائل سے متعلق سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے، درخواست کی سماعت تک ملزم کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا جانا چاہیے.
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بحریہ کے سابق افسران کے کورٹ مارشل میں سزائے موت کے خلاف درخواست کی سماعت کا تحریری حکم جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے مطابق انہیں سزا سنائی گئی تھی
ملزم کے شواہد اور کورٹ آف انکوائری کے دستاویزات بھی شیئر نہیں کیے گئے. وکیل کے مطابق سزائے موت اور نظرثانی کی درخواست کے خلاف اپیل بھی ان دستاویزات تک رسائی کے بغیر مسترد کر دی گئی. وکیل کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کے وکلاء کو دستاویزات تک رسائی کا حکم دیا. وکلاء کو دستاویزات تک محدود رسائی دی گئی تھی
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے مطابق دستاویزات تک رسائی دینے کا اختیار چیف آف نیول اسٹاف کے پاس ہے. چیف آف نیول اسٹاف کا خیال ہے کہ دستاویزات تک رسائی سے ریاست کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے.
عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ شہری کی زندگی کے حق کے ساتھ ریاست کے مفاد میں توازن کیسے رکھا جائے. آئین کے آرٹیکل 9 اور 10A شہریوں کو زندگی کا حق اور منصفانہ ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں. زندگی کے حق، منصفانہ ٹرائل سے متعلق سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے، درخواست کی سماعت تک ملزم کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا جانا چاہیے.
چیف آف نیول اسٹاف کے خیال میں دستاویزات تک رسائی ریاست کے مفادات کے خلاف کیوں ہے چیف آف نیول اسٹاف کا موقف تین ہفتوں کے اندر مہر بند لفافے میں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے. عدالت نے ہدایت کی ہے کہ کیس کی دوبارہ سماعت یکم جولائی 2024 کو کی جائے. پاکستان نیوی کے سابق افسران ارسلان نذیر ستی، محمد حماد، محمد طاہر راشد، حماد احمد خان اور عرفان اللہ نے سزائے موت کے خلاف اپیلیں دائر کی ہیں.
68