اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )ایف آئی اے کی تحقیقات میں تیزی آگئی ہے اور تحقیقاتی ٹیم نے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ کو 25 جولائی کے لیے تیسرا سمن نوٹس جاری کردیا جب کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو بھی طلب کرلیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ کے حکم پر ڈی جی ایف آئی اے نے 5 اکتوبر کو سائفر اور آڈیو لیک ہونے کی تحقیقات کے لیے ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد زون رانا عبدالجبار کی سربراہی میں 5 رکنی انکوائری ٹیم تشکیل دی، دیگر ارکان میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم اسلام آباد، ڈپٹی ڈائریکٹر کاؤنٹر ٹیررازم ونگ، اسٹنٹ ڈائریکٹر آئی او اور سربراہ ٹیم کے ارکان کی جانب سے مقرر کردہ افسران شامل ہیں۔
کسی ملک کی سیاست میں مداخلت نہیں کرتے، سائفر کے حوالے سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے،امریکہ
اسی طرح 3 انٹیلی جنس اداروں کے ایک گریڈ 19 کے افسر کو بھی انکوائری ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ تفتیشی ٹیم آڈیو لیک اور سائفر اور اس کی کاپی سمیت دیگر حوالوں کی چھان بین جاری رکھے ہوئے ہے۔
اب سائفر کے حوالے سے سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا بیان بھی سامنے آگیا ہے، تو تحقیقات کو تیز کرنے والی ٹیم نے سابق وزیراعظم کو تیسرا سمن نوٹس جاری کرتے ہوئے 25 جولائی کو دوپہر 12 بجے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر طلب کرلیا ہے۔
سمن نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ آپ کو پہلے بھی دو مرتبہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے نوٹس دیے گئے لیکن تفتیش نہیں ہوئی، اسی طرح نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ آپ سائفر ٹیلی گرام اور دیگر سے متعلق دستاویزات بھی ساتھ لائیں۔ خبردار کیا گیا ہے کہ نوٹس پر عمل نہ کیا گیا تو دستیاب شواہد کی بنیاد پر یکطرفہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایف آئی اے نے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو بھی 24 جولائی کو طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ سائفر کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے ایف آئی اے کی انکوائری میں شامل ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ جاری کیا گیا تھا لیکن اس وقت انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک رہنے اور نومبر 2022 کے وسط تک وطن پہنچ کر انکوائری میں شامل ہونے کا عندیہ دیا تھا۔
سائفر پہلے سے طے شدہ ڈرامہ تھا جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا
جس کے بعد ان کا حالیہ بیان سامنے آیا ہے جب کہ ایف آئی اے آئی نے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کو طلبی کے نوٹس جاری کیے جس میں شاہ محمود قریشی نے اپنے وکیل کے ذریعے بیان جمع کرایا۔