اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)زیادہ بجلی کے بل نہ صرف بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہیں بلکہ اس میں شامل زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے بھی ہیں جو ہر بل کا 40 سے 50 فیصد ہیں۔
حکومتی چارجز میں بجلی کی ڈیوٹی، 35 روپے ٹی وی فیس، جی ایس ٹی، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور ایکسائز ڈیوٹی شامل ہیں۔ ایک یونٹ سرچارج لگایا گیا ہے، حکومت بجلی کے بلوں میں صارفین سے 0.43 روپے فی یونٹ مالیاتی سرچارج بھی وصول کرتی ہے۔
کمرشل اور صنعتی صارفین سے انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، صارفین پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی لاگو ہوتا ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر اضافی جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بھی شامل ہوتی ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے بھی صارفین سے بل ایڈجسٹمنٹ وصول کیے۔ موجودہ بلوں میں بجلی کے بڑھے ہوئے نرخوں کی وصولی کے لیے بجلی کے نرخ 42 روپے فی یونٹ ہونے پر صارفین نے بھی کھلبلی مچادی۔ ماہانہ 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی دی گئی۔ اور ان کے لیے ریٹ 10 روپے فی یونٹ تھا۔
تاہم ISCO نے 200 فی یونٹ استعمال کرنے والے صارفین سے 22.9 روپے فی یونٹ چارج کیا۔ آئیسکو حکام کا کہنا ہے کہ 200 یونٹس پر سبسڈی کی سہولت ان صارفین کے لیے ہے جو مسلسل 6 ماہ تک 200 یونٹ استعمال کرتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کی تجویز کردہ 25 روپے ریڈیو فیس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق مالیاتی توازن برقرار رکھنے اور موجودہ نگران حکومت پر آئی ایم ایف کی جانب سے کسی بھی ٹیکس کی وصولی کو کم کرنے کے لیے دباؤ کے پیش نظر بجلی کے بلوں میں ٹیکس اور لیوی کو مختصر مدت میں کم نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تاخیر ممکن نہیں ہے اور اس کا واحد طویل مدتی حل یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی یوٹیلیٹی کمپنیوں کو بند کر دیا جائے اور بغیر کسی سیاسی یا دیگر مداخلت کے ان کی نجکاری کی جائے۔