کاروبار خواہ کوئی بھی ہو اس کا ایک اہم بنیادی اصول ہے جس کی بدولت صارف اورفروخت کنندہ اسودگی حاصل کرتے ہیں اور کاروبارمیں ترقی ہوتی ہے وہ خرید کندہ کو اس قیمت کے عوض بہترین سہولیات فراہم کرتا ہے مثلا اگر کوئی صارف پانچ روپے خرچ کرتا ہے تو فروخت کنند کو اسے کم از کم تین روپے کی شے جبکہ دو روپیہ پرافٹ،ٹیکس و ترسیلی خرچ وصول کرنا ہوتا ہے یہ اصول غیر مسلموں بلکہ گائے پوجنے والوں نے بھی اپنائے ہوئے ہیں دنیا میں اگر دیکھا جائے تو تمام بڑی کمپنیاں یہودیوں،عیسائیوں اور ہند ئوں کی ہیں جبکہ چین ایک ابھرتی ہوئی معیشت بن رہا ہے جو صارف کو اس سے قیمت تو وصول کرتا ہے مگر انہیں سہولیات و آسودگی بھی فراہم کرتاہے۔اگر بات کی جائے دیس ناتواں و بے ایماں کی تو یہاں درجنوں ایسے ادارے اور بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جو صارف سے چیز کی پوری قیمت تو درکنار دگنا سے بھی کئی زیادہ وصول کرتی ہیں مگر سہولت آدھی قیمت کے برابر بھی نہیں دیتیں۔قارئین!ضرور اب سوچ میں پڑگئے ہونگے کہ وہ کونسی کمپنیاں اور ادارے ہیں اگر آپ اپنے ذہن پر زور دیں تو درجنوں نام آپ کے ذہن میں گونجیں گے جو صرف صارف کی جیب پر ڈاکہ ہی ڈالنے تک عوام کی خدمت کررہے ہیں راقم چند ایک مثالیں پیش کیے دیتا ہے غریب کی سواری موٹرسائیکل کی بات کی جائے تو ایک اچھی کمپنی کا موٹر سائیکل ایک سے دو لاکھ روپے تک کا مل رہا اگر اسی موٹر سائیکل کے سپیئر پارٹ خرید کر کسی موٹر سائیکل مکینک سے بنوایا جائے تو وہ پچاس سے ستر ہزار میں پڑتا ہے اور آپ حیران رہ جائینگے کہ اس کمپنی اور عام بننے والے موٹرسائیکل میں نصف قیمت سے زیادہ کا فرق ہے یہی صورتحال کار کے متعلق بھی ہے کہ پچاس لاکھ میں بکنے والی کار بیس لاکھ روپے میں بن سکتی ہے۔ٹیوٹا،ہنڈا کی کاریں جو نصف کروڑ سے زائد کی مل رہی ہیں ان میں آسودگی یا سہولت نام کی چیز اس سے آدھی قیمت سے بھی کم میں میسر آسکتی ہے کیونکہ ان کو بنانے والے نے صرف اپنی جیب کو دیکھا ہے صارف کی سہولت کونہیں دیکھا یہی وجہ ہے کہ وہ معمولی سے حادثے میں بھی جان کی بازی ہارتا ہے اور گاڑی کی قیمت بھی آدھی بلکہ اس سے بھی کم کروا دیتا ہے یہ تو ایک آٹو موبائل انڈسٹری کی مثال ہے جو حکومتیں چلارہے ہیں ان کے خلاف کون بولے یہاں تو اسطرح کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہورہا ہے قارئین!آج کا موضوع آٹو موبائل نہیں بلکہ آزادکشمیر کا کماپت محکمہ برقیات ہے جو ہر سال اپنے ٹارگٹ سے زیادہ ریونیو اکھٹا کرتا ہے اور حکومت و ریاستی معاملات چلانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے محکمہ برقیات ریاست کا کما پت ہو بھی کیوں نہ کیونکہ اس نے الٹے اور سیدھے ہاتھ سے لینا ہی سیکھا ہے عوام کو سہولت دینا اس کے منشور میں شامل ہی نہیں محکمہ برقیات،واپڈا سے بجلی دو روپے پچیس پیسے فی یونٹ خرید رہا ہے جبکہ صار ف کو ٹیرف کے مطابق تقریبا سات سے پچاس روپے کے درمیان فروخت کررہا ہے اور کم خرچ طویل منافع کی ضرب المثل کو پایا تکمیل تک پہنچا رہا ہے طویل منافع اس لیے کہ میٹر سے لیکر تار، کھمبے اور ٹرانسفارمر تک صارف اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لیڈر اور قائد جس کو ووٹ دیتا ہے اس کے وسیلے سے مفت یا قیمت دیکر خریدتا ہے اور کبھی اسے بجلی کی ترسیل ممکن بنانے والا کھمبا یا ٹرانسفارمر ٹوٹ یا جل جائے تو وہ بھی اسے اندھیروں میں رہ کر خود چندہ کرکے نہ صرف تیار کروانا پڑتا ہے بلکہ معاونت کرنے والے ملازمین کی خدمت بھی کرنا پڑتی ہے جو یقینا نقدی کی صورت میں ہی ہوتی ہے اگر خوش قسمتی سے کسی فرد کا گھر سرکاری افسر کا گھر یا بڑے لیڈر کے پڑوس میں ہوتو وہ اس سارے جھنجھٹ سمیت ٹرانسفارمر کے فیوز اڑنے پر ملازم کے ناز و نخرے اٹھانے اور سفری الانس سمیت جیب خرچ دینے سے محفوظ رہ سکتا ہے وگرنہ یہ سہولیات عام شہری کے لیے ناپید ہیں اس میں اگر باریکی سے دیکھا جائے تو قصور ان فیوزلگانے کے چار پانچ سولینے،میٹر کی تار لگانے والے چھوٹے ملازمین کا نہیں ہے کیونکہ یہ کولھو کے بیل کی طرح اس نظام میں جتے ہوئے ہیں جہاں یہ بخشیش لیں یا دھونس جما کر رشوت ان کی مجبوری ہے بلِات جمع کرکے خزانہ بھرنا تو یہ ان کا فرض ہے مگر ساتھ ہی اوپر کی سطح یعنی سیکرٹری لیول تک اس نظام کو بھی چلانا ہوتا ہے جس میں آفیسران بالا کی صرف خدمت ہی خدمت ہے بلکہ حکم کی تعمیل ان کے لیے حرف قرآن ہے جس کی روگردانی کی سزا دور دراز علاقوں میں ٹرانسفریا معطلی کی صورت میں سامنے آتی ہے ہر کہانی خطہ کشمیر کی شہری کی ہو یا پاکستان کے کسی علاقے کی اس سے کچھ مختلف نہ ہوگی۔خاکسار نے بھی اسی ماحول میں آنکھ کھولی اور بڑا ہوکر تھوڑا بااختیار ہوا تو فیصلہ کیا کہ اب کی بار ٹرانسفارمر جلنے پر چند کرکے نہیں دینا اندھیرے میں رہنا منظور ہے مگر رشوت دیکر جہنم ٹھکانہ نہیں بنانا پھر وہی ہوا ٹرانسفارمر جلا اوپر سے حکم جاری کروایا کہ ٹرانسفارمر ٹھیک کرواکے بجلی بحال کی جائے تو عقد یہ کھلا کہ محکمہ تو یتیم ہے ورکشاب ہے تو نہ ملازم و سامان چپ سادھے رکھی ملازم بیچارے مرتے کیا نہ کرتے حکم سخت جان شکنجے میں تھی اب کی باری چندے کی عام عوام کی بجائے ان کی تھی جیسے تیسے پکڑپکڑا کر ٹرانسفارمر بلآخر ٹھیک کرکے چلا دیا گیا۔بے دست و پا بیچارے ملازم نے کہا کہ آپ کی بجلی چل گئی ہے آپ نے تو پیسے نہیں دیئے مگر ہم کیا کریں ہم نے بھی کہیں نہ کہیں سے پورے کرنے ہوتے ہیں پورے کرہی لینگے یہ سن کر دل بھر آیا جی چاہا کہ اس کے گلے لگ کر اس نظام کا ماتم کروں مگر دونوں طرف مجبوری تھی دونوں مسکرا کر چل دیئے۔وہ کھاتا پورا کرنے کے لیے اور میں نئی کہانی لکھنے کے لیے قارئین یہ بے وقت کا راگ یہ جو میں الاپ رہا ہوں کیونکہ اس مضمون سے نہ ہی نظام بدلنے کے لیے عوام نکلے گی اور نہ ہی کسی افسر میں اتنی ہمت جاگے کی کہ وہ نظام کو بہتر کرنے اور سزا و جزا کے فیصلہ سنانے پر قادر ہوسکے یخ بستہ موسم میں منوں کے حساب سے منگلا ڈیم کی مچھلی اور گرم موسم میں چونسے کی پیٹیاں و دیگر تحائف وصول کرنے والے آفیسران بھی جانتے ہوتے ہیں کہ کون کب کہاں اور کیسے یہ سب کچھ کررہا ہے بلکہ کچھ تو تحائف وطعام کے اتنے دلدادہ ہوتے ہیں کہ گھروں سے فہرستیں بنی آتی ہیں کس سے کیا منگوانا ہے اور یہ بھی جانتے ہوتے ہیں کہ کس نے کتنا لیا ہے اور اس سے کتنا لینا ہے نظام ِمعاشرہ اسی طرح چل رہاہے خیریہ تو سب فرضی باتیں ہیں قلم کے گھوڑے کا سانس پھول رہا ہے بس آج کے لیے اتنا ہی اللہ ہمیں حقیقی مسلمان بنائے اور فہم اور فراست سمیت شعور کی روشنی سے روشناس کرائے جو حق سچ اور حلال حرام کی تمیز کرنے میں مدد دے آمین۔