بالکل اسی طرح صدیق کانجو کے بیٹے مصطفیٰ کانجو کو بھی عدالت نے شواہد کے نہ ہونے پر رہا کردیا تھا، جبکہ ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کے جھگڑے میں فائرنگ کی گئی اور زین نامی اک جواں سال یتیم مارا گیا تھا۔
شاہ زیب خان قتل کیس، سانحہ ساہیوال اور دیگر درجنوں واقعات ہیں جس میں ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردیے جاتے ہیں یا پھر گرفت میں ہی نہیں آتے۔ عدالت، استغاثہ، عوام، حکمران اور دیگر لوگ جانتے ہیں کہ ثبوت عدم کیسے ہوئے؟ عدالت اور جج بھی کاغذات، شواہد اور گواہوں کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرتے ہیں لیکن قاتل یا مجرم جرم کے بعد کدھر غائب ہوجاتے ہیں؟ وہ اپنے کیے پر ثبوت کیوں نہیں چھوڑتے؟ حالانکہ دنیا کی ماہر ترین خفیہ ایجنسیاں بھی اپنے خلاف کوئی نہ کوئی ثبوت چھوڑ ہی جاتی ہیں۔
چلیے ملزم رہا ہوگیا لیکن جرم تو ہوا ہے تو پھر قتل کس نے کیا؟ اس کےلیے کیا مقتول خود اٹھ کر آئے گا؟ اگر ’’ملزم‘‘ مجرم نہیں تو مجرم کو ڈھونڈنے کا کام کس کا ہے؟ کیا یہ کام لواحقین اور مقتول کا ہے؟ عدلیہ، پولیس اور دیگر ادارے کس لیے ہیں؟ اگر گواہ بھاگ جاتے ہیں تو ان کو ڈراتا کون ہے؟ اگر کوئی ڈراتا ہے تو خوف سے حفاظت کرنے کی ذمے داری کس کی ہے؟ اور اگر مدعی صلح کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں؟ اگر عدلیہ اور پولیس اتنے بااختیار ہونے کے باوجود یہ دباؤ برداشت نہیں کرسکتے تو عام شہری تو اسی میں بھلا جانے گا کہ خون جلانے سے بہتر خون بہا لینا ہی ہے۔
آج سے کچھ عرصہ قبل ایک کالم نگار نے اپنے کالم میں یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنے جیلر دوست کے توسط سے ایک جیل کا سروے کرکے قیدیوں کے انٹرویو لیے۔ یہ قیدی جیب تراشی سے لے کر چوری تک اور زنا بالجبر سے کر قتل تک مختلف جرائم میں پابند سلاسل تھے۔ ان کے اس سروے کا مقصد تو شاید قیدیوں کے حالات جاننا تھا مگر انہوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان میں جرم امیر اور صاحب حیثیت شخص نہیں کرتا بلکہ صرف غریب اور کمزور کرتا ہے یا وہ کمہار، موچی، نائی، جولاہا یا ان کے اردگرد کے لوگ کرتے ہیں، جبکہ کوِئی بھی بڑا زمیندار، بڑا کاروباری شخص، بڑا سرکاری افسر، سیاست دان یا ٹوانہ، وٹو، لغاری، مزاری، زرداری وغیرہ نہیں کرتے۔
ان شخصیات پر صرف جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے جو ان کے مخالفین ان کے عہدے، طاقت اور پیسے سے حسد کے نتیجے میں ان پر لگاتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین الیکشن جیتنے کےلیے لگاتے ہیں۔ اور ان کی سب آڈیوز اور ویڈیوز ڈیپ فیک سے بنتی ہیں۔ اس لیے وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی رہتے ہیں، جہاں انھیں دوسرے قیدیوں سے قدرے بہتر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جہاں ان کو علاج معالجے کےلیے بہترین ڈاکٹر تک کی فراہمی ہوتی ہے اور کبھی تو اسپتال کا کمرہ ہی جیل قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور آخر میں ’’انصاف کی جیت ہوئی‘‘ یا ’’عدالتیں انصاف کرتی ہیں‘‘ یا ’’مخالفین کو اللہ نے رسوا کیا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے یہ لوگ عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری ہوجاتے ہیں۔
نظام انصاف کی یہ صورتحال اور قانونی اسقام ثابت کرتے ہیں کہ جب تک قانون کو بلاتفریق امیر و غریب، سب پر یکساں لاگو نہیں کیا، ’’عدم ثبوت‘‘ کا یہ چکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔