اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مقابلہ جو کہ بہت اہم سمجھا جاتا ہے بظاہر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان ہے لیکن یہ دونوں جماعتیں خود ایک ‘تیسری قوت کی طرف بھی دیکھ رہی ہیں
مذہبی جماعتوں پر مشتمل یہ تیسری قوت اگر انفرادی طور پر کامیاب نہ بھی ہو تو بھی کئی حلقوں میں دو بڑی جماعتوں کے امیدواروں کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ضرور ہو سکتی ہے اور ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔
اس کی ایک تازہ مثال کراچی، سندھ میں قومی اسمبلی کے حلقہ 240 کا ضمنی انتخاب ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے لیکن صرف 61 ووٹوں کے فرق سے۔ ان کی حریف مذہبی جماعت ٹی ایل پی تھی
پنجاب میں 17 جولائی کو 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ٹی ایل پی نے تقریباً تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں،
جبکہ چند ایک حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار میدان میں ہیں جبکہ پنجاب کے بعض جنوبی علاقوں میں مذہبی جماعتوں نے ن لیگ اور پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
مبصرین ضمنی انتخابات کو اس زاویے سے بھی دیکھ رہے ہیں کہ آیا ماضی کی طرح مذہبی جماعتوں کے انفرادی یا حمایتی ووٹ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
پنجاب میں سال 2017 کے دوران لاہور کے ضمنی انتخاب میں پہلی بار مذہبی جماعتوں نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا تھا
یہ نشست سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے باعث خالی ہوئی تھی اور ضمنی انتخاب میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز ن لیگ کی امیدوار تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد ان کے مدمقابل تھیں۔
کلثوم نواز نے یہ مقابلہ جیت لیا لیکن دو مذہبی جماعتوں کے امیدوار جو پہلی بار براہ راست انتخابی سیاست میں حصہ لے رہے تھے تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے تھے ۔ ان دونوں امیدواروں نے گیارہ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے۔
تحریک لبیک کے امیدوار 7 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور مذہبی جماعت ملی مسلم لیگ کے امیدوار تقریباً 6 ہزار ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے تھے
ان نتائج کے بعد سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ یہ دونوں جماعتیں عام انتخابات میں ن لیگ کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
دونوں جماعتوں کو اپنے سیاسی حریفوں کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ انہیں طاقتور لوگوں کی خفیہ حمایت حاصل ہے، جس کی دونوں جماعتوں نے تردید کی
اگلے سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کے امیدواروں نے حصہ لیا ٹی ایل پی نے ان انتخابات میں نہ حیران کن ووٹ حاصل کیے بلکہ سندھ صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں جیتنے میں بھی کامیاب ہوئی۔
کیا اس بار بھی مذہبی جماعتیں ماضی کی طرح کردار ادا کر پائیں گی؟
مبصرین کا خیال ہے کہ ضمنی انتخابات میں نئی اور روایتی مذہبی جماعتیں زیادہ اثر و رسوخ حاصل نہیں کر سکیں گی۔
مبصرین کے مطابق یہ ایک بڑا سرپرائز ہوگا اگر مذہبی جماعتیں ایک حلقے میں 10,000 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں
ٹی ایل پی نے تقریباً تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں تاہم وہ ضمنی انتخابات کو اپنے آئندہ عام انتخابات کی تیاری کے لیے استعمال کریں گے۔
وہ اپنے اوپر سے اسٹیبلشمنٹ سپورٹ کا ٹیگ ہٹانا چاہتے ہیں۔
گزشتہ عام انتخابات میں یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ مذہبی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی اور اس نے نون لیگ کے ووٹ بینک کو متاثر کیا، بالخصوص پنجاب میں۔ .
اس بار صورتحال مختلف ہے۔ "اس بار اگر کسی حلقے میں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو زیادہ ووٹ ملے تو اس کا اثر دونوں جماعتوں یعنی نون لیگ اور پی ٹی آئی کے ووٹ بینک پر بھی پڑے گا۔”
لگتا نہیں کہ طاقتور حلقے ن لیگ کے ووٹ بینک پر اثر انداز ہونا چاہیں گے ،ضمنی انتخابات میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ تقسیم ہو گا۔
اس کا اظہار مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی اور نون لیگ کے امیدواروں کی حمایت کے اعلانات سے ہوتا ہے لیکن یہ ٹی ایل پی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
جب کسی بھی مذہبی جماعت کا اپنا امیدوار میدان میں نہیں ہوتا تو مذہبی جماعتوں کا ووٹ فرقہ کی بنیاد پر اکٹھا ہوتا ہے۔
اگر ٹی ایل پی زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ آئندہ عام انتخابات کیلئے پوزیشن مضبوط کر لی گے
کراچی میں کچھ عرصہ پہلے ہونے والے ضمنی الیکشن میں ٹی ایل پی امیدوار نے مخالف امیدوار کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے تاہم
کراچی اور پنجاب کی سیاست میں نمایاں فرق ہے۔ پنجاب میں ووٹر کو نکال کر اس سے ووٹ لینے کا طریقہ کراچی سے بالکل مختلف ہے۔
یہاں خصوصاً جنوبی پنجاب میں زیادہ تر ووٹ برادری یا خاندانی اثر و رسوخ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں جبکہ کراچی میں ایسا نہیں ہے