اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)تحریک انصاف کی فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے میں جہاں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پر بیرون ملک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں، اب اس کے بعد یہ بحث زبان زد عام ہے کہ بیرونی فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ میں کیا فرق ہے
آٹھ سال کے طویل عرصے سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ‘غیر ملکی یا ممنوعہ فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔
پاکستان تحریک انصاف نے کبھی الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تو کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے حکم کے خلاف حکم امتناعی حاصل کیا گیا اور پھر عدالت نے حکم امتناعی خارج کردیا
کیا تمام غیر ملکی فنڈنگ ممنوع ہے؟
پاکستانی میڈیا میں اس جماعت کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف دی گئی درخواست میں شروع سے ہی غیر ملکی فنڈنگ کا نام لکھا گیا تھا۔
ساڑھے سات سال تک پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو غیر ملکی فنڈنگ کے نام پر کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کاز لسٹ میں صرف اکبر ایس بابر بمقابلہ پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس لکھا گیا۔
الیکشن کمیشن میں جب اس کیس کی سماعت مکمل ہونے والی تھی تو پاکستان تحریک انصاف کے وکیل انور منصور کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا کہ ان کی پارٹی کے خلاف کیس کا ٹائٹل کاز لسٹ میں ہے تو اس وقت کہا گیا کہ اسے ممنوعہ فنڈنگ لکھا جائے
اس صورتحال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ میں کیا فرق ہے اور کیا کسی سیاسی جماعت کو بیرون ملک سے ملنے والی تمام فنڈنگ ممنوع ہے؟
ممنوعہ فنڈنگ اور غیر ملکی فنڈنگ کا مسئلہ 1962 سے پاکستان کی سیاست میں شامل ہے، اسی دور میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذ کیا گیا جس نے تمام سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی فنڈنگ سے روک دیا اور فنڈنگ پر پابندی لگا دی۔
اسی ایکٹ کو نہ صرف سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے 2002 کے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ میں برقرار رکھا گیا بلکہ 2017 کے الیکشن ایکٹ میں بھی برقرار رکھا گیا۔
الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو کسی بھی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے براہ راست یا بالواسطہ ملنے والے فنڈز ممنوع ہیں۔
پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا کسی بھی ملکی سرکاری یا غیر سرکاری کمپنی سے براہ راست یا بالواسطہ فنڈز نہیں لے سکتی۔ تجارتی کمپنیوں اور پیشہ ورانہ انجمنوں سے فنڈز وصول کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس طرح قانون سازوں نے پاکستان میں کام کرنے والی مقامی کمپنی سے سیاسی جماعت کے لیے فنڈنگ پر پابندی عائد کی ہے، اسی طرح غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ لینا بھی ممنوع ہے۔ الیکشن کمیشن نے متعلقہ قانون اور سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو کام براہ راست نہیں ہوسکتا وہ بالواسطہ نہیں ہوسکتا۔
اسی فیصلے میں الیکشن کمیشن نے یہ بھی واضح کیا کہ کوئی سیاسی جماعت بیرون ملک سے کس قسم کی فنڈنگ لے سکتی ہے اور فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق چندہ یا فنڈ صرف ملک یا بیرون ملک مقیم افراد سے ہی لیا جا سکتا ہے جن کے پاس پاکستانی شہریت ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کی سزا کیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اگر کوئی ملک یا اس کا کوئی ادارہ کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعت کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور اس کے ثبوت الیکشن کمیشن کو بھی مل جاتے ہیں تو ایسی فنڈنگ ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن کو ایسی پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے اور ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کو سفارشات بھیجنے کا اختیار حاصل ہے۔
الیکشن کمیشن
ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے کنور دلشاد نے کہا کہ جو شخص پاکستانی نہیں ہے یا جس نے اپنی پاکستانی شہریت ترک کر دی ہے اور پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اس سے فنڈز لیتی ہے تو ایسے فنڈز ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو بیرون ممالک سے ممنوعہ فنڈنگ ملی ہے تو الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حکومت کے خلاف یہ رقم ضبط کر لے اور اس کے علاوہ دیا گیا انتخابی نشان بھی واپس لے سکتا ہے۔
کنور دلشاد نے کہا کہ اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو الیکشن کمیشن نہ صرف اس پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کر سکتا ہے اور اس کا انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے بلکہ اس پارٹی کے سربراہ کو جھوٹا حلف نامہ دینے پر چارج شیٹ بھی کر سکتا ہے کیونکہ ہر وقت سالانہ گوشوارے جمع کرانے پر، جماعت کا سربراہ حلف نامہ دیتا ہے کہ اس کی جماعت کو غیر ملکی فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ نہیں ملی۔
کنور دلشاد نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اختیار ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ ثابت ہونے پر پارٹی کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن ایک کے تحت 15 دن میں سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجے گی اور اس ریفرنس پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی۔
پاکستان کے انتخابی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے اکاؤنٹس میں رقم کی ضبطی کے علاوہ غیر ملکی فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ پائی جاتی ہے تو اس جماعت کے سربراہ کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ یہ ہے کہ ان سے ان کی سچائی اور امانت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے مالی گوشوارے جمع کرواتے ہوئے یہ حلف نامہ دیا جاتا ہے کہ ان کی پارٹی کو کوئی ممنوعہ فنڈنگ نہیں ملی۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر سکتی ہے لیکن اگر عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں حکم امتناعی جاری نہیں کیا تو اس جماعت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں
تحریک انصاف کے علاوہ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور جے یو آئی ف کے خلاف الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کا کیس چل رہا ہے تحریک انصاف کی خواہش تھی کہ سب کا فیصلہ اکٹھا سنایا جائے تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا
پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن دیگر جماعتوں کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق درخواستوں پر آئندہ عام انتخابات سے قبل فیصلہ دینے کا پابند ہے۔