اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)عمران کی فتح اور ن لیگ کی شکست کی کیا وجوہات تھیں ؟پورے صوبے میں پی ٹی آئی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر حلقے میں منحرف ارکان یا ’’لوٹے‘‘ بری طرح شکست کھا چکے ہیں۔ پی ٹی آئی 15 سیٹیں بچانے میں کامیاب رہی۔ ایک آزاد امیدوار نے میدان مار لیا۔ ن لیگ نے پی ٹی آئی سے 4 نشستیں حاصل کیں لیکن حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کی ’’پگ‘‘ داغدار ہو گئی، وہ اب وزیراعلیٰ نہیں رہے۔ اسد عمر کے مطابق ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی 22 جولائی کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالیں گے، چوہدری پرویز الٰہی کو عمران خان کی حمایت حاصل ہے۔
ضمنی انتخابات کے بعد پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔ پی ٹی آئی 15 نئی نشستوں کے بعد 178 تک پہنچ گئی۔ 4 نشستیں جیتنے کے بعد مسلم لیگ ن 167 نشستوں پر پہنچ گئی۔ ق لیگ 10، پیپلز پارٹی 7، آزاد ارکان کی تعداد 6، پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک رکن بھی اسمبلی کا حصہ، حکومتی اتحاد 179، اپوزیشن اتحاد 188۔371 پر مشتمل پنجاب اسمبلی کے ایوان میں 2 ارکان مسلم لیگ ن نے استعفیٰ دے دیا۔
پی ٹی آئی کے امیدوار کیوں جیت گئے؟ حکومت ہونے کے باوجود ن لیگ کے امیدوار کیوں ہارے؟ اس کے کچھ بنیادی عوامل ہیں۔
پی ٹی آئی کی کامیابی میں سب سے اہم کردار عمران خان کے بیانیے کا ہے۔ اور سچ ہو یا غلط، عمران خان یہ بیانیہ عوام کے ذہنوں میں داخل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ نوجوان عمران خان کے علاوہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کھلاڑی کپتان کی بات مانتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی کامیابی کی ایک اور بڑی وجہ انتخابی عمل میں شفافیت ہے۔ اس الیکشن کو شفاف بنانے میں الیکشن کمیشن اور اداروں کا کردار خود پی ٹی آئی کی ٹیم سے زیادہ ہے۔
جس نے اپنے ووٹوں کی حفاظت کی اور انتخابی عمل کو کہیں بھی کسی بھی گڑبڑ سے بچایا۔ تیسری وجہ پی ٹی آئی کی کامیاب اور بھرپور انتخابی مہم ہے۔ چوتھی بڑی وجہ اپنے کارکنوں کو میدان میں اتارنا ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ نوجوان اور تازہ دم چہرے تھے، کچھ بوڑھے لوگ بھی ادھر ادھر نظر آئے۔ اس الیکشن میں جہاں پی ٹی آئی نے اپنی نشستیں بچائی ہیں وہیں عمران خان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی نے پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 49.69 فیصد رہی۔ پی ٹی آئی 46.80% ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہی، مسلم لیگ ن نے 39.50% ووٹ حاصل کیے۔
مسلم لیگ کے امیدوار کیوں ہارے؟
مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی شکست کی بڑی وجہ تحریک انصاف کے منحرف ارکان کو ٹکٹ دینا تھا۔ ن لیگ کے لیے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دینا سمجھ سے بالاتر تھا جن سے ووٹرز نفرت کرتے تھے۔ پارٹی قیادت کے اس فیصلے سے کئی امیدوار آزاد حیثیت سے لڑے اور اچھے ووٹ حاصل کئے۔ آزاد امیدواروں کے ووٹوں کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا۔ اگر ن لیگ کو ان آزاد امیدواروں کے ووٹ مل جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ دوسری بڑی وجہ حکومت کے سخت فیصلے ہیں۔ شہباز حکومت نے وہی فیصلے کیے جن کی وجہ سے لوگ عمران حکومت سے ناراض تھے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، ایسے میں عام ووٹر ن لیگ سے سخت ناراض ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ 20 میں سے 20 سیٹیں ن لیگ کی نہیں تھیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں یہ نشستیں پی ٹی آئی یا آزاد امیدواروں نے جیتی تھیں۔
کون جیتا اور کون ہارا، ایک بات طے ہے کہ ماضی کے کھیل اب نہیں کھیلے جا سکتے۔ بیساکھیوں سے حکومتیں نہیں بن سکتیں۔ اب وقت گزر چکا ہے کہ وردی والے لوگوں کو چار ٹرکوں پر بٹھا کر اقتدار حاصل کیا جائے۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، کچھ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب ’’خفیہ‘‘ کارروائیوں کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اب جو بہادری دکھائے گا، کھڑا ہوگا، مزاحمت کرے گا، وہی کامیاب ہوگا۔ پاکستان کے لوگ بہادر لوگوں کو پسند کرتے ہیں، بہادر لوگوں کے ساتھ کھڑے
ہیں۔ نواز شریف عوام میں مقبولیت کھوتے ہوئے حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد لندن چلے گئے۔ شہباز شریف نے مفاہمت کی اور ان کے مزاحمتی بیانیے پر پانی پھیر دیا۔
عمران خان حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے، اپنے ووٹروں، حامیوں کو مفاہمت اور مزاحمت کی طرف لے آئے اور کامیاب ہوئے۔ حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کو بھی اب عوام کے فیصلوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہی پاکستان کی بقا ہے۔