اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا۔
آٹھ رکنی بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم اور دیگر نے سپریم کورٹ میں 4 درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرکے منظوری کے لیے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوایا تھا تاہم صدر مملکت نے بل نظرثانی کے لیے اسپیکر کو واپس بھیج دیا تھا۔ .
صدر مملکت نے کہا کہ پارلیمنٹ اس بل پر نظر ثانی کرے، بل کا مسودہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
بعد ازاں 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس بل کو ترامیم کے ساتھ اکثریتی ووٹ سے منظور کر کے دوبارہ صدر کو بھیجا گیا۔ بل پر صدر مملکت کے دستخط کے بعد چیف جسٹس اور 3 سینئر ججز کا نوٹس لینے کا اختیار خود بخود ختم ہو جائے گا۔ ازخود نوٹس پر فیصلہ کر سکیں گے
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار اب سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججوں کے پاس ہوگا۔
بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہو جائے گا، بنچوں کی تشکیل اور ازخود نوٹس کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کرے گی۔
نئی قانون سازی کے تحت نواز شریف کو نوٹس پر ملنے والی سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہوگا جب کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور نااہل قرار دیے گئے دیگر فریق بھی اپنے خلاف فیصلوں کو چیلنج کر سکیں گے۔