اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں، جب ناانصافی ہو تو زیادہ دیر نہیں چلتی۔اسلام آباد میں منعقدہ آئین کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں لیکن اسے اپنایا گیا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ کتاب نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ عوام کے لیے بھی اہم ہے، اس کتاب میں عوام کے حقوق موجود ہیں، پاکستان 1947 میں جدوجہد کے بعد قائم ہوا اور پہلی بار مسلم ریاست معرض وجود میں آئی۔
آئین کی گولڈن جوبلی، جسٹس فائز عیسیٰ حکومتی بنچوں پر بیٹھے
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں، جب ناانصافی ہوتی ہے تو زیادہ دیر نہیں رہتی، آئین کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا جس کا وہ حقدار ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ دیکھنا چاہیے کہ جھوٹ اور بے حیائی کے کیا نتائج نکلتے ہیں، دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1971 میں قوم کا سر جھک گیا اور قوم شرمندہ ہوئی، پھر 4 جولائی 1977 کو ایک شخص نے جمہوریت اور آئین پر حملہ کیا اور اس شخص نے 11 سال حکومت کی، پھر طیارہ حادثے میں مر گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک آمر آتا ہے، پھر کچھ عرصے بعد اپنے آپ کو دھوکہ دینے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں جمہوریت پسند ہوں۔ 30 دسمبر 1985 کو مارشل لا بھی اٹھا لیا گیا۔
سینئر جج نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط فیصلہ تھا، 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کر دیا گیا، 12 اکتوبر 1999 کو ایک شخص نے سوچا کہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں اور اس نے دوسرا دھچکا 3 نومبر 2007 کو لگایا۔ ،
حکومت کرنے کا حق صرف منتخب نمائندوں کو ہے: جسٹس فائز عیسیٰ
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ فیصلہ غلط ہوگا تو غلط ہی رہے گا، تاریخ نے ہمیں 7 بار سکھایا ہے، تاریخ سے کچھ نہ سیکھا تو وہ خود کو دہراتی رہے گی، آئین کا بوجھ ہم پر بھاری ہے، آئین میں بڑی ہمت ہے، ہمیں بھی اپنی ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔