اب گوگل کی جانب سے اس حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے اور گوگل اکاؤنٹس کے لیے پاس کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے۔
PASS کی ٹیکنالوجی کو پاس ورڈ کے متبادل کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، جس سے صارف کو فون یا کمپیوٹر پر فنگر پرنٹ آئی ڈی، چہرہ یا پن کوڈ استعمال کرتے ہوئے اپنے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔
ایپل نے سب سے پہلے اس ٹیکنالوجی کو iOS 16، macOS Ventura اور iPadOS 16 کا حصہ بنایا، جبکہ مائیکروسافٹ اسے اپنی Authenticator ایپ کے ذریعے استعمال کر رہا ہے۔
پاس ورڈ کے برعکس، ایک پاس خود بخود تیار ہوتا ہے۔صارف کو اپنے استعمال کردہ ہر ڈیوائس یا آپریٹنگ سسٹم یا ایپ کے لیے ایک پاس کی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے، جسے آلات کے درمیان بھی شیئر کیا جا سکتا ہے۔
دماغ کو پڑھنے والی اے آئی ٹیکنالوجی تیار
یہ کرپٹوگرافک پاسکی ڈیوائس پر اسٹور کی جاتی ہے اور ایک عوامی کلید گوگل کے سرور پر اپ لوڈ ہوتی ہے۔صارفین کا تجربہ بالکل ویسا ہی ہوگا جیسا کہ وہ پاس ورڈ آٹو فل استعمال کرتے ہیں۔گوگل نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ٹیکنالوجی دوسروں کے لیے لوگوں کے اکاؤنٹس تک رسائی کو ناممکن بنا دے گی کیونکہ ڈیوائس میں محفوظ کردہ پاس ورڈز اور بائیو میٹرکس کو کبھی بھی شیئر نہیں کیا جا سکتا۔
کمپنی نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی ورلڈ پاس ورڈ ڈے کے موقع پر متعارف کرائی جا رہی ہے اور یہ گوگل اکاؤنٹس کے پاس ورڈز کے خاتمے کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے۔گوگل کے مطابق یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے مستقبل قریب میں دیگر ایپس اور ویب سائٹس کے لیے بھی اپنایا جائے گا۔اگر پاس کی سے لیس کوئی ڈیوائس گم ہو جائے تو صارف کے لیے اکاؤنٹ کی ترتیبات کے ذریعے اس تک رسائی کو روکنا ممکن ہو گا۔