اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) سپریم کورٹ نے خود جوڈیشل ریفارمز بل کا پارلیمانی ریکارڈ حاصل کر لیا،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت کی اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کا نظرثانی قانون بن چکا ہے
جس کے بعد نظرثانی کا دائرہ اختیار سماعت کے بجائے اپیل کے مترادف ہو گیا ہے، سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجرز بل اور ایکٹ میں نظر ثانی کے دائرہ کار میں قدرے توسیع کی جائے۔ ایک تنازعہ ہے سپریم کورٹ کے قوانین اور طریقہ کار کی دفعہ IV اور نظرثانی ایکٹ کی دفعہ 6 ایک جیسے ہیں، یہ دونوں ایکٹ نئے وکیلوں کی تقرری کا اختیار فراہم کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قوانین میں ہم آہنگی ہونی چاہیے، قانون سازی کا تعلق سپریم کورٹ کے انتظامی امور سے ہے، آپ کو سپریم کورٹ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا، ہم قانون سے متعلق وفاقی حکومت، پارلیمنٹ کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ معاملہ خود پارلیمنٹ کو بھیجے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے، آپس میں مشورہ کرکے بتائیں گے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم بھی ایسے کیس چلائیں اور پارلیمنٹ بھی چلتی رہے پھر دیکھتے ہیں کون تیزی سے کرتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا تاہم ابھی تک ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا، لیکن وہ بھول گئے کہ تمام ریکارڈ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے، حکومت بہت مہربان ہے، ہم نے تمام ریکارڈ ویب سائٹ سے ڈان لوڈ کر لیا ہے۔ .