ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب نذیر احمد کی منظوری سے حساس اداروں کے افسران کی خدمات کے لیے خطوط لکھ دئیےگئے ہیں جب کہ نیب میں تمام خالی آسامیوں پر فوری طور پر تقرریاں کی جائیں گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیپوٹیشن پر تعینات انٹیلی جنس افسران اور اہلکار نیب کے دفاتر میں اپنے فرائض سرانجام دیں گے اور نیب دفاتر میں انٹیلی جنس کا مضبوط اور موثر نظام قائم کیا جائے گا جبکہ احتساب کے عمل کو تیز تر بنانے کے لیے انٹیلی جنس افسران اور اہلکاروں کی مدد لی جائے گی۔ موثر انٹیلی جنس افسران نیب کے تفتیشی افسران کی معاونت کریں گے۔
ذرائع کے مطابق نیب میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے تمام افسران اپنے سکیل اور تنخواہ پر کام کریں گے، یہ افسران و اہلکار سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تمام کیسز چلانے میں معاونت بھی کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل کی آسامیوں پر بھی مستقل افسران کی تعیناتی کی جائے گی۔
نیب ترامیم پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی گئی، 50 کروڑ تک کے ریفرنسز کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کرنے کی شق کالعدم ہے تاہم سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی شقیں برقرار ہیں
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال ہیں، عوامی عہدوں کا ریفرنس ختم کرنے سے متعلق نیب کی ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں
عدالت نے کہا کہ پلی بارگین سے متعلق نیب کی ترامیم کالعدم ہیں، نیب ترامیم کی روشنی میں احتساب عدالتوں کے احکامات کالعدم ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوامی مفاد کے آئین میں درج حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند تمام تحقیقات اور انکوائریاں بحال کی جائیں۔
خیال رہے کہ پارلیمنٹ نے نیب ایکٹ کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25 اور 26 کے علاوہ نیب ایکٹ کے سیکشن 14، 15، 21 اور 23 میں ترمیم کی تھی۔