یہ بھی پڑھیں
سال کے 12 مہینوں کے د ن برابر کیوں نہیں ہوتے ؟
قدیم یونان میں بھی سال 10 مہینوں پر مشتمل تھا اور یہ رومی سلطنت میں اپنایا گیا تھا۔700 قبل مسیح میں ایک نیا کلینڈر متعارف کرایا گیا جس میں جنوری اور فروری کے مہینوں کا اضافہ کیا گیا۔اس کیلنڈر میں جنوری کو سال کا پہلا مہینہ اور فروری کو سال کا آخری مہینہ قرار دیا گیا اور یہ ترتیب 424 قبل مسیح تک جاری رہی۔اس تناظر میں فروری کو سال کا دوسرا مہینہ بنایا گیا۔لیکن وہ رومی کیلنڈر چاند پر مبنی تھا، یعنی موجودہ اسلامی سال کی طرح سال کا آغاز بھی آگے پیچھے ہوتا ہے۔جب جولیس سیزر نے 46 قبل مسیح میں روم پر قبضہ کیا تو اس نے شمسی کیلنڈر متعارف کرایا۔اسے جولین کیلنڈر کا نام دیا گیا اور یکم جنوری کو نئے سال کا آغاز قرار دیا گیا۔
مزید پڑھیں
کیا آپ جانتے ہیں انسانی تاریخ کا طویل ترین سال کونسا ہے ؟
اس کیلنڈر میں ہر 4 سال بعد ایک اضافی دن کا اضافہ کیا جاتا تھا جسے اب 2024 کی طرح لیپ ایئر کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ کیلنڈر رومی سلطنت کے زیر قبضہ یورپ کے تمام حصوں میں اپنایا گیا تھا، لیکن نئے سال کا آغاز ہر جگہ ایک جیسا نہیں تھا۔قرون وسطیٰ کے یورپ میں کرسمس کے دن کو نئے سال کا آغاز سمجھا جاتا تھا جب کہ کچھ ممالک میں نئے سال کا آغاز 25 مارچ سے ہوتا تھا۔جولین کیلنڈر میں ایک خرابی تھی اور یہ 365 دن اور 6 گھنٹے طویل ہوتا تھا لیکن 11 منٹ کے فرق کے ساتھ۔یہی وجہ ہے کہ 1570 کی دہائی میں پوپ گریگوری نے ایک نیا کیلنڈر بنایا جس میں 10 دن ختم ہو گئے۔
گریگورین کیلنڈر میں، یکم جنوری کو سرکاری طور پر نئے سال کا آغاز قرار دیا گیا۔رفتہ رفتہ اس کیلنڈر کو دنیا کے بیشتر حصوں نے قبول کرلیا، حتیٰ کہ اسلامی ممالک میں بھی جہاں ہجری کیلنڈر استعمال ہوتا ہے۔گریگورین کیلنڈر کو کاروباری مقاصد کے لیے بین الاقوامی کیلنڈر کے طور پر اپنایا گیا۔