پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے جاری کی گئی سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں موجود غیر مسلم اقلیتیوں کو ہر شعبہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
پتن نامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق ملک میں توہین مذہب کے قانون کو عام طور پر سیاسی و معاشی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تنظیم کے مطابق یہ سروے صوبہ پنجاب کے شہروں لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں نومبر تا دسمبر دو ہزار چودہ منعقد کیا گیا اور اس میں بارہ سو افراد نے حصہ لیا۔
پتن کے کوآرڈینیٹر سرور باری کے مطابق ان افراد میں تیس فیصد مختلف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جبکہ دیگر افراد میں اعلیٰ حکومت و سرکاری عہدیدار، جج ، وکلاء اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل تھے۔‘‘
سروے کے شرکاء کے مطابق خواتین کے ساتھ سلوک کے معاملے میں مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیتیں دونوں ہی ایک سی ہیں اور خواتین کو اپنے خاندانوں اور معاشرے میں مختلف طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سروے میں شریک افراد کی اکثریت کے مطابق تمام شہریوں کے ساتھ ملکی آئین و قانون کے مطابق یکساں برتاؤ نہیں کیا جاتا اور قوانین کے نفاذ میں ایک بڑا خلاء موجود ہے۔
ان شرکاء کے مطابق عام طور پر لوگ اپنے مذہب کو دوسروں کے مذہب کے مقابلے میں برتر سمجھتے ہیں اور توہین مذہب کے قانون نے غیرمسلموں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا ہے۔ توہین مذہب کے قانون کا استعمال ان لوگوں کے خلاف نہیں کیا جاتا جو غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
سروے میں حصہ لینے والے بیالیس فیصد افراد کے مطابق غیر مسلم شہری خوف کے سبب حکومتی پالیسیوں اور اپنے حقوق کو پامال کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں کرتے۔
پینسٹھ فیصد افراد کے مطابق دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے لیکن اس پر ریاستی اہلکار کسی کے خلاف ایکشن نہیں لے رہے۔
سروے کے شرکاء نے ملکی اردو ذرائع ابلاغ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی جبکہ ترپن فیصد کا کہنا تھا کہ انگریزی زبان کے اخبارات بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیےکردار ادا کر رہے ہیں۔ اسکول کے نصاب میں غیر مسلموں کے خلاف جذبات بھڑکانے کا مواد موجود ہے۔ جبکہ بعض اوقات غیر مسلم طلبہ کو اسلامیات پڑھنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔
سرور باری کے مطابق اس سروے کا مقصد پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور اس پر حکومتی رد عمل کو اجاگر کرنا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ ’’ اس وقت جب پوری قوم اور ادارے دہشتگردی کے خلاف یک زبان ہیں تو امید کی جانی چاہیے کہ غیر مسلموں کے تحفظ کے حوالے سے بھی ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل رکھنے کے لیے ایسے اقدامات لیے جائیں جو صرف باتوں کی حد تک نہ ہوں بلکہ نظر بھی آئیں۔‘
‘ انہوں نے کہا کہ جناح کے تصور کا پاکستان تبھی پورا ہو گا جب یہاں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیمیں مختلف مسائل کی نشاندہی کرتی آئی ہیں۔ خصوصاً گزشتہ سال پاکستانی سپریم کورٹ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت سے متعلق اپنے تفصیلی فیصلے میں حکومت کو متعدد ایسے اقدامات تجویز کیے تھے جن پر عمل کر کے اقلیتوں میں عدم تحفظ کو دور کیا جا سکتا ہے۔
مبصرین کچھ عرصہ قبل انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت کی جانب سے لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہوں اور مسلح حملوں میں ملوث دو افراد کو سزائے موت د ئیے جانے کے فیصلے کو ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے خلاف شدت پسندانہ کارروائیوں کے خاتمے کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں۔