اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اسلام آباد کی حدود سے اٹھائے جانے والے پولیس اور رینجرز کی وردیوں کی کسی کو پرواہ نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سابق مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی جس میں ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور دیگر فریقین کو فریق بنایا گیا۔ لاپتہ مراد اکبر کے وکیل قاسم ودود، ایس پی نوشیروان اور ڈی ایس پی لیگل عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے کیس کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جو لوگ آئے وہ نہ تو سی ٹی ڈی کے تھے اور نہ ہی رینجرز کے۔ کیا آپ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں؟ . ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ جی بالکل ان میں سے نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ فوٹیج میں کون نظر آرہا ہے جس پر ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ ہاں ضرور دیکھیں گے۔
عدالت نے کہا کہ گاڑیوں اور افراد کی شناخت ہو گئی تو نتائج ہوں گے۔ جب اتنے لوگ سی ٹی ڈی اور رینجر کی وردی میں آئیں گے تو یہ شرمناک فعل ہوگا۔ سیف سٹی پر کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، لوگوں کی ذاتی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرتے ہیں، لیکن چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں پکڑتے۔ ڈی جی رینجرز کہاں ہیں؟، وزارت دفاع سے کون ہے؟، عدالت نے ڈی جی رینجرز کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر ڈی جی رینجرز کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کریں گے۔ اگر ان کی وردی استعمال ہو رہی ہے تو وہ ذمہ دار ہیں۔ اسلام آباد کے اندر اتنے لوگوں نے مل کر ایک بندہ اٹھایا۔ پولیس رینجر اور سی ٹی ڈی کی وردی میں لوگ آئے اور اس شخص کو لے گئے۔ کیا وہ جعلی لوگ تھے، آپ نے پر چہ کیوں نہیں درج کرایا؟ پولیس اور رینجرز کی وردیاں چوری ہو رہی ہیں۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کو پہلے کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے جواب دیا، ابھی حکم دوں گا، سب سمجھ جائیں گے۔ ورنہ نہ تو آئی جی اور نہ ہی کسی اور کو اسلام آباد میں رہنے کا حق ہے۔ ڈی جی رینجر کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کیا ان کی وردی استعمال ہوتی ہے۔ لوگ پولیس اور رینجر کی وردی میں لوگوں کو اٹھا رہے ہیں اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔